Maktaba Wahhabi

222 - 668
الغرض جیسا مرض ویسا علاج، بنا بریں انسان کی جیسی حالت ویسا ہی حکم۔ ناظرین! یہ کیسی اعلیٰ ترین خوبی ہے، علمی مسئلہ اور عین عقل کے مطابق ہے جس کو کوتاہ اندیشی سمجھا گیا ہے۔ پادری صاحب کی جانے بلا کہ علوم و محاسن کیا چیز ہیں ؟ ان کے منہ میں تو سوائے بکواس کے اور کچھ نہیں ۔ ہم پادری صاحب کو بائبل سے وہ مقام دکھاتے ہیں ، جن میں درحقیقت گفتار اور رفتار میں ثابت قدمی نہیں ہے، بلکہ بقول ان کے متغیر تعلیم کا موجب، اس کے مصنف کی کوتاہ اندیشی، علمی کمزوری اور بے اعتباری ہے۔ مندرجہ ذیل مقامات کو غور سے دیکھیے: کتاب گنتی باب نمبر (۴ا) درس نمبر (۲۳) میں بنی اسرائیل کو خدا فرماتا ہے: ’’بے شک تم اس زمین تک نہ پہنچو گے جس کی بابت میں نے قسم کھائی کہ تمہیں وہاں بساؤں گا۔‘‘ پھر اسی باب کے درس ۳۴ میں کہتا ہے: ’’تم چالیس برس تک اپنے گناہوں کو اٹھائے رہو گے، تب تم میری عہد شکنی کو جانو گے۔‘‘ بنی اسرائیل کو خدا نے قسم کھا کر زمین دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن جب انھوں نے گناہ کیا، جس کی حد چالیس برس تک تھی، اس سزا کے گزر جانے کے بعد بھی عیسائیوں کے خدا نے ان پرظلم کیا اور زمین تک پہنچانے سے وعدہ خلافی کرتے ہوئے انکار کر دیا۔ گویا خدا تعالیٰ اپنی گفتار میں ثابت قدم نہیں رہا۔ جس مذہب میں خدا کو بے وفا اور عہد شکن ثابت کر دیا ہو، اس کے ماننے والے اب بھی اگر اسلام پر طعن کریں تو یہ محض انصاف کا خون کرنا ہے۔ پھر دیکھو حزقیل نبی کی کتاب باب ۴ درس ۱۲ میں ہے: خدا نے حضرت حزقیل نبی کو فرمایا: ’’اور تو جو کے پھلکے کھایا کرے گا اور تو ان کی آنکھوں کے سامنے انسان کے گوہ (پاخانے) سے انہیں پکائے گا۔‘‘ پس جب اس نبی نے خدا سے اس پاک خوراک کے کھانے کا حکم سنا تو فوراً ان کے کھانے سے انکار کرتا ہوا کہتا ہے: ’’دیکھ میری جان کبھی ناپاک نہیں ہوئی۔‘‘ (باب۴ درس ۱۴) پھر خدا اپنے اس پاکیزہ الہام کو واپس لیتا ہوا کہتا ہے: ’’دیکھ میں انسان کے گوہ کے عوض تجھے گوبر دیتا ہوں ۔ سو اپنی روٹی تو اس سے پکا۔‘‘ (باب ۴ درس ۱۵) اس جگہ بھی خدا کی ثابت قدمی کی مخالفت ظاہر ہے۔ پہلے انسان کا پاخانہ پھر اس کے بعد
Flag Counter