Maktaba Wahhabi

248 - 668
کی، جیسا کہ قریب ہی گزر چکا ہے۔ علاوہ ازیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ ہم نے کسی کو باقی نہیں چھوڑا، سوائے چارپایوں کے جنھیں ہم نے غنیمت جان کے پکڑا اور مال کو خداوند ہمارے خدا نے سب کو ہمارے قبضے میں کر دیا۔ (استثنا باب ۲ درس ۳۵۔ ۳۷) پس اگر بقول پادری صاحب کے مالِ غنیمت کو تصرف میں لانا حرصِ دنیاوی اور لوگوں کے مال وجان کا نقصان کرنے کا نام ہے تو پھر اس کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ خدا تعالیٰ ان سب افعالِ قبیحہ کا بانی بلکہ ظالم ہے کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے چارپایوں کے اور مال کے ما سوائے تمام مردوں ، بے قصور بچوں اور عورتوں کو مروا ڈالا۔ ناظرین! تورات کے ایسے مضامین جن میں صاف الفاظ میں خدا تعالیٰ کی طرف ظلم اور فساد کو منسوب کیا جاتا ہے، ہم اسے نہ خدا تعالیٰ کا کلام مانتے ہیں اور نہ کسی نبی کی صحیح حدیث، بلکہ یہ کسی محرف کے اکاذیب و اباطیل ہیں ، جو در پردہ خدا اور انبیا علیہم السلام کا دشمن تھا۔ پادری صاحب کے مطاعن جو غنیمت کے بارے میں تھے، ان سب کا نزلہ ان کی الہامی کتاب پر گرا۔ اب حضرت مسیح کے حال پر غور کرو جو بقول مسیحی حضرات، کسی قسم کی مشقت کے بغیر عورتوں کے مال سے ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے اور بہتیری عورتیں بھی تھیں جو اپنے مال سے ان کی خدمت کرتی تھیں ۔ (لوقا باب ۸ درس ۳) کیا بیگانی عورتوں کے مال سے اپنے شاگردوں کے لیے ناحق فائدہ اٹھانا، حرص دنیاوی اور نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ان کے مال کا نقصان کرنا، دنیا دار کا کام نہیں ہے، جس کا حضرت مسیح نے ارتکاب کیا؟ یقینا ترکِ دنیا کے بھیس میں بیگانی عورتوں کے مال سے گزارا کرتے رہے۔ ذیل میں ہم ایک ایسا مسئلہ بیان کرنا مناسب سمجھتے ہیں جس پر عیسائیوں اور آریوں کی طرف سے سنگین اعتراض ہوتا رہتا ہے کہ اہلِ اسلام ان عورتوں کو جو غنیمت اور لوٹ میں ہاتھ آئی ہوں ، بلا نکاح استعمال کرتے ہیں ، یہ زنا نہیں تو اور کیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ بالکل غلط، بلکہ صریح بہتان ہے، مخالفین کو اس وجہ سے غلط فہمی ہوئی کہ اسلام میں آزاد اور لونڈی عورت کے نکاح میں چونکہ فرق ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو آزاد اور لونڈی میں مساوات لازم آتی ہے، لہٰذا جو شرائط آزاد کے نکاح میں ضروری ہیں ، وہ غلام کے نکاح میں نہیں ، جیسا
Flag Counter