Maktaba Wahhabi

249 - 668
کہ ولی اور دو گواہوں کا ہونا اور مہر وغیرہ، بخلاف لونڈی کے۔ قرآن وحدیث میں بوضاحت لونڈی کے شرائط مذکور ہیں کہ جب کوئی شخص کسی غلام عورت کو بیچ دے تو بیچنے والے کی طرف سے اس کو طلاق ہو جاتی ہے۔ غلام عورت کے لیے صرف دو طلاقیں ہیں ، جس سے وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے اور اس کی عدت دو حیض ہیں ، جس کی میعاد دو ماہ ہے۔[1] (مشکاۃ باب الخلع والطلاق) عدت گزرنے کے بعد خریدنے والے سے اس کا نکاح ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص لونڈی کو ہبہ کر دے، یعنی بخش دے تو اس صورت میں بخشنے والے کی طرف سے طلاق اور جسے بخشی گئی ہو، اس سے نکاح ہوجاتا ہے۔ نیز آزاد کرنے کی صورت میں بھی لونڈی کو طلاق ہو جاتی ہے، کیونکہ وہ غلام نہیں رہی، بلکہ آزاد ہو چکی۔ اگر اسلام میں غلام عورت کا نکاح نہ ہوتا تو اس پر نکاح کی حد، یعنی قید، طلاق اور عدت کے احکام جاری نہ کیے جاتے۔ فافہم۔ اس طرح جو عورتیں غنیمت میں ہاتھ آ جائیں ، ان کا استعمال کرنا حرام ہے، جب تک اسلامی بادشاہ کی طرف سے ان کو تقسیم نہ کیا جائے۔ پس بصورت تقسیم جس کے حصے میں وہ آ گئی، اس سے اس کا نکاح ہو چکا، لیکن اس کے باوجود بھی اس کا استعمال میں لانا حرام ہے، جب تک اس کا استبرا نہ ہو جائے، جس کی مدت ایک حیض ہے۔ اسی طرح اگر لونڈی حاملہ ہو تو اس سے بھی صحبت کرنا حرام ہے، جب تک جَنْ کر نفاس سے پاک نہ ہو جائے۔[2] (مشکاۃ، باب الاستبراء) ایسے احکام پُرزور لونڈی کا نکاح ثابت کر رہے ہیں ۔ فافہم۔ اب ہم اس مسئلے کو عیسائیوں کی کتاب تورات سے ثابت کرتے ہیں ، تا کہ ان کی زبان اسلامی مسئلے پر طعن کرنے سے بند ہو جائے۔ چنانچہ لکھا ہے: ’’جب تو لڑائی کے لیے اپنے دشمنوں پر خروج کرے اور خداوند تیرا خدا ان کو تیرے ہاتھوں میں گرفتار کرے اور تو انھیں اسیرکر لائے اور ان اسیروں میں جو خوبصورت عورت دیکھے اور تیرا جی اسے چاہے کہ اسے اپنی جورو بنائے تو تو اسے اپنے گھر میں لا، اس کا سر منڈا اور ناخن کٹوا۔ تو وہ اپنا اسیری کا لباس اتارے اور تیرے گھر میں رہے اور ایک مہینہ بھر اپنے باپ اور اپنی ماں کے سوگ میں بیٹھے، بعد اس کے تو اس کے ساتھ خلوت کر اور اس کا
Flag Counter