Maktaba Wahhabi

270 - 668
صورت میں بیوہ اپنے پہلے خاوند کے گھر رہتی ہے، جس سے نیوگ ہوتا ہے، اُس کے گھر نہیں چلی جاتی۔ جواب: یہی تو ایک خرابی ہے کہ زمانہ حال میں بہت سے واقعات ایسے پائے جاتے ہیں کہ بیوہ عورت اپنے گھر میں بیٹھ کر زنا کاری کرتی ہوئی ناجائز اولاد جن لیتی ہے اور کبھی کبھی اُس کی بدکاری ظاہر بھی ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بلا اجازت بے شک زنا کاری ہے، لیکن نیوگ میں باپ یا بڑے بھائی وغیرہ کی اجازت ہوتی ہے تو اس پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بدمعاش آدمی اپنی کواری یا بیوہ بیٹیوں کو زنا کاری کی اجازت دیتے ہوئے، بلکہ حکومت سے اجازت لے کر بازار میں بٹھلا دیتے ہیں اور کبھی اُن سے اولاد بھی پیدا ہوتی ہے تو کیا اِس اجازت کی صورت میں اِسے زنا نہیں کہا جائے گا، یقینا جب تک نکاح کے پورے اجزا ثابت نہ ہوں اِسے زنا ہی سمجھا جائے گا۔ دوسرے منکوحہ بیوی کے لڑکے اُس کے خاوند کی جائیداد کے وارث ہوتے ہیں ؟ جواب: عقلاً بھی یہی درست ہے، چونکہ منکوحہ کے خاوند کے لڑکے اس کی حقیقی اولاد ہوتے ہیں ،لہٰذا ان کا منکوحہ کے خاوند کی طرف منسوب ہونا اور اس کی جائیداد کا وارث ہونا از حد ضروری ہے، لیکن نیوگ کرنے والی عورت کے لڑکے اُس کے نیوگ کے خاوند کے لڑکے کہلاتے ہیں اور نہ اُن پر اُس کا کوئی حق ہوتا ہے۔ وہ اپنی ماں کے متوفی خاوند کے لڑکے کہلاتے ہیں ۔ اُس کے گوت کو قائم رکھتے ہیں اور اُس کی جائیداد کے وارث بن کر اُسی کے گھر میں رہتے ہیں ۔ جواب: کیوں جناب! یہ کیسا ظلم اور بے انصافی ہے؟ نیوگی خاوند کے لڑکے چوں کہ اُس کے نطفہ سے ہوتے ہیں ، لہٰذا اُن کو اُس کی طرف منسوب ہونا اور اُس کی جائیداد کا وارث ہونا چاہیے۔ پہلا خاوند جو مر چکا ہے، نیوگی خاوند کے لڑکے کس طرح اُس مرنے والے کے لڑکے کہلا سکتے ہیں اور کس طرح اُس کی جائیداد کے وارث ہو سکتے ہیں ؟ جب کہ وہ اُس کے نطفے سے نہیں ۔ ہائے رام! کیسا برا پاپ ہے۔ بیج کسی کا، اُس سے چھین کر پھل کسی کو دینا، خلافِ نیچرل، عقل اور قانونِ قدرت کے ہے۔ سماجی دوستو! آپ چونکہ نیچرل اور عقل کے زبردست مدعی ہیں ، اب اُس سائنس اور نیچرل کو یہاں سے کون اٹھا کر لے گیا۔ علاوہ ازیں زانی بھی اپنی اولاد کا اقرار یا انکار دونوں صورتوں میں نہ اُن کی پرورش کرتا ہے اور نہ اُن پر اپنا کوئی حق سمجھتا ہے اور اپنی جائداد کی وراثت سے اُن کو محروم رکھتا
Flag Counter