Maktaba Wahhabi

382 - 668
کے سے تھے۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا چونکہ شریف خاندان تھا، لہٰذا اس بات کا اندیشہ تھا کہ شاید حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت دحیہ رضی اللہ عنہ میں ناراضی پیدا ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت دحیہ رضی اللہ عنہ سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو غصب نہیں کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے عوض میں اسے سات خوبصورت لونڈیاں عطا کیں ۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا اتنا درجہ بلند ہوا کہ ایک سپاہی کے ہاتھ سے آزاد کر کے اسے غلامی کی زنجیر سے آزاد کیا، پھر اپنے نکاح میں لائے۔ گویا سپاہی کے ہاتھ سے آزاد کر کے اسے بادشاہ کی، بلکہ سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ بنایا گیا۔ یہ تو ہے اصل واقعہ، جس پر نکتہ چینی کی ذرہ بھر بھی گنجایش نہیں ہے۔ خاص کر پنڈت جی اور دوسرے مہاشے متروں کو تو اس پر طعن کرنے سے زبان بند کر لینی چاہیے، کیونکہ یہ واقعہ دھرم شاستر منوسمرتی کے عین مطابق ہے: ان کا پرمان ہے: رتھ، گھوڑا، ہاتھی، چھتری، دھن دحانیہ، چارپایہ، عورت وغیرہ سب کو جو فتح کرے، وہی اس کا مالک ہوتا ہے۔ (منوسمرتی ب ۷ شلوک نمبر ۹۷) چونکہ فتح کرنے والا راجہ بادشاہ ہر چیز کا عموماً اور خصوصاً عورت کا مالک بھی ہوتاہے، پس پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس شلوک کے بموجب حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے مالک تھے، لہٰذا ان کو اپنے نکاح میں لانے کا حق حاصل تھا۔ پنڈت جی اگر اپنے رشی کے مندرجہ ذیل فعل کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر خیانتانہ بہتان لگانے سے پیشتر مطالعہ کر لیتے تو شاید ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کلام کرنے کی جراَت پیدا نہ ہوتی۔ چنانچہ مہا بھارت ادیوگ پر ب ادھیائے ۱۱۷ میں بھی لکھا ہوا ہے، جیسے سرسوتی سے برہمانے رمن (جماع) کیا تھا، اور بھوشہ پران پرب میں بھی لکھا ہے: ترجمہ: جو عورت عقل مند ہو، اسے اچھا خاوند کر لینا چاہیے، خواہ اس کا بیٹا، باپ اور بھائی کیوں نہ ہو۔ وہ اس کا خاوند بن سکتا ہے، جس طرح اپنی سگی بیٹی کو برہما نے اور سگی ماں کو وشنو نے اور بہن کو شِو شمبھو نے پراپت کر کے فضیلت حاصل کی۔ (وید ارتھ پرکاش ب ۳ صفحہ: ۱۰۱) عقل مند عورت تو ایسے قبیح فعل کا ارتکاب ہر گز نہیں کرے گی، کیونکہ باپ بیٹے اور بھائی کو خاوند بنانا، عقل، بلکہ فطرت کے انتہائی خلاف اور حیوانات کے فعل سے بھی ابتر ہے۔ عورت تو عقل مند ہو گی یا نہ، لیکن اس کو ایسی حیا سوز تعلیم دینے والا تو یقینا عقل کا دشمن ہے۔ پنڈت جی سے دریافت کیا جاتا ہے کہ آپ کے رشی مہاراج اپنی سگی بیٹی، سگی ماں اور بہن کو استعمال کرنے سے باز نہ آئیں ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ نکاح پر بھی آپ کو طعن کرنے سے شرم و حیا نے نہیں روکا۔ کہو جی کون دھرم ہے؟
Flag Counter