Maktaba Wahhabi

395 - 668
ایسے بھی تھے، جن کے دل میں کفر تھا اور بظاہر وہ مومن کہلاتے تھے۔ خدا نے قبلے کے بدلنے سے ظاہر کر دیا کہ کون شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں قائم رہتا ہے اور کون مرتد ہو جاتا ہے۔ نسخِ قبلہ کو دیکھ کر کچھ لوگوں نے پادری صاحب کی طرح دل میں شبہات پیدا کر کے ایمان سے رو گردانی کی اور مومن ایمان پر ثابت قدم رہے۔ الغرض مومن اور کافر میں تمیز کرائی گئی۔ اگر کسی کے میلانِ خاطر کو ملحوظ رکھا جاتا، جیسا کہ پادری صاحب کا خیالِ باطل ہے، تو تبدیلیِ قبلہ کا حکم دے کر کچھ لوگوں کا کفر ظاہر نہ کیا جاتا۔ کیوں جناب! کیا یہ میلانِ خاطر کا موجب ہے یا لا پروائی کا باعث؟ آپ ایسے حواس باختہ ہوئے کہ لاپروائی کو میلانِ خاطر سمجھ بیٹھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگریہودیوں کو راضی کرنا چاہتے تو ان کے اعتقاد سے، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ان کا تھا، اتفاق کرتے، حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کفری اعتقاد کی سخت تردید کی۔ یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی پیدایش نا جائز طور پر ہوئی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدایش کو معجزانہ طور پر ثابت کر دیا اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت مریم [کو ان کے زہریلے بہتان سے پاک و منزہ بتایا اور ان کے نبیِ صادق ہونے کی شہادت دی۔ عیسائیوں پر اسلام کا یہ زبردست احسان ہے، جس کا شکریہ ادا کرنے سے وہ عاجز ہیں ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغِ اسلام میں عربوں کے میلانِ خاطر کا بھی لحاظ نہیں رکھا۔ اگر آپ ایسا کرتے تو مکہ ہی میں کعبہ کی طرف نماز میں منہ پھیر لیتے، حالانکہ اہلِ مکہ کی مخالفت کے باعث آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور سترہ ماہ کے بعد کعبہ کی طرف نماز پڑھی۔ (صحیح مسلم جلد نمبر۱) الغرض کہ آپ تبلیغِ رسالت میں کسی کی پروا نہیں کیا کرتے تھے۔ خواہ کوئی راضی ہو یا ناراض۔ البتہ عیسائی مذہب کی بنیاد ہی عوام کو راضی کرنے پر ہے۔ پولوس نے اعلان کر دیا کہ جو شخص حضرت مسیح علیہ السلام کے خدا کا بیٹا ہونے پر اور کفارہ وغیرہ پر ایمان لے آئے تو اس کے گناہ معاف کیے جائیں گے۔ شریعت پر عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس فریب سے عوام کو اپنے مذہب میں داخل کرنے کی ناپاک کوشش کی کہ دلیری سے گناہ کرو مسیح کے کفارے سے نجات ہو گی۔ نجات نہیں ، بلکہ یہ عقیدہ جہنم میں لے جانے کا موجب ہے۔
Flag Counter