Maktaba Wahhabi

440 - 668
10۔﴿ اِنَّکُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ اَنْتُمْ لَھَا وٰرِدُوْنَ * لَوْ کَانَ ھٰٓؤُلَآئِ اٰلِھَۃً مَّا وَرَدُوْھَا وَ کُلٌّ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ﴾ [الأنبیائ: ۹۸۔۹۹] ترجمہ:۔ اے مشرک لوگو! بے شک تم اور وہ چیز جس کی تم پوجا کرتے ہو وہ جہنم کا ایندھن ہیں ۔ تم خاص اس کے لیے وارد ہونے والے ہو۔ اگر یہ عبادت کے حق دار ہوتے تو اس میں وارد نہ ہوتے اور ہر ایک اس میں ہمیشہ رہے گا۔ (شیر ص:۱۰) نجات: ’’واردون‘‘ کا ترجمہ دوزخ کے پاس آنے والے شاہ رفیع الدین صاحب کے لفظی ترجمے سے نقل کیا گیا ہے۔ یہاں بھی لفظ ’’وارد‘‘ کے معنی داخل ہونے کے نہیں ہیں ۔ البتہ ﴿فِیْھَا خٰلِدُوْنَ﴾ سے دوزخ میں داخل ہونا سمجھا جاتا ہے۔ یہاں بھی پادری صاحب نے عمداً خیانت سے کام لیتے ہوئے آیت کے اگلے حصے کا ذکر تک نہیں کیا۔ ’’اور واسطے ان کے جہنم میں ایسا شور ہو گا جس کی وجہ سے کسی کی بات نہیں سنیں گے۔‘‘ ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓی اُولٰٓئِکَ عَنْھَامُبْعَدُوْنَ * لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَھَا وَ ھُمْ فِیْ مَا اشْتَھَتْ اَنْفُسُھُمْ خٰلِدُوْنَ﴾ [الأنبیائ: ۱۰۱۔ ۱۰۲] ترجمہ: تحقیق وہ لوگ جو مقدر ہو چکی ہے واسطے ان کے ہماری طرف سے بھلائی وہ لوگ اس سے دور کیے جائیں گے کہ اس کا کھٹکا بھی نہیں سنیں گے، وہ اس جگہ میں ہمیشہ رہیں گے، جہاں ان کی جانیں چاہیں گی۔ دوزخ میں داخل ہونے والے لوگ اور ایماندار لوگ دوزخ کے پل سے گزرنے میں تو برابر ہوں گے، لیکن ایمانداروں کو اس سے مستثنیٰ اور الگ کیا جائے گا کہ وہ اس کا، دور ہونے کی وجہ سے، کھٹکا تک نہیں سنیں گے، بلکہ ان کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ یہ آیت اسلامی نجات ثابت کرنے میں ایسی نصِ قطعی اور فیصلہ کن ہے جس میں کسی شبہے کی گنجایش نہیں رہتی۔ قرآن اور احادیث کے شواہد سے لفظ ’’وارد‘‘ کی خوب تحقیق کی گئی ہے۔ اب یہ بحث ختم ہو گئی۔ الحمد اللّٰہ۔
Flag Counter