Maktaba Wahhabi

456 - 668
ان ہر دو روایتوں میں بڑی سخت مخالفت ہے۔ کہاں عورتوں کا پو پھٹتے وقت قبر پہ آنا اور کہاں سورج نکلتے وقت کم از کم ایک گھنٹا اور چند منٹوں کا فرق ہے۔ ہر چند صلیبی واقعات باہم ایک دوسرے کے ایسے ضد ونقیض ٹھہرتے ہیں کہ ان میں مطابقت نہیں ہو سکتی۔ اور سنو! متی کا بیان ہے: ’’جب باہر آئے تو انھیں شمعون نامی ایک کرینی آدمی ملا۔ اسے بیگار میں پکڑا کہ اس کی صلیب اٹھائے اور اس جگہ گلگتا، یعنی کھوپڑی کی جگہ کہلاتی ہے پہنچ کر۔‘‘ (متی ب ۲۷ درس ۳۲ تا ۳۴) مرقس کی روایت اس سے بھی زیادہ واضح ہے: ’’شمعون اس کی صلیب اٹھائے اور وہ اسے مکان گلگتا میں ۔‘‘ (مرقس ب ۱۵ درس ۲۱ تا ۲۲) یعنی آدمی شمعون کو لے کر مکان گلگتا تک پہنچ گئے اور لوقا کی روایت بھی اس کے قریب ہی ہے۔ (لوقاب ۲۳، درس ۲۶) ہر سہ انجیلوں کا اتفاق ہے کہ شمعون مسیح کی صلیب اٹھا کر مکان گلگتا تک پہنچا اور یوحنا کی روایت اس کے خلاف ہے: ’’وہ یسوع کو لے گئے اور وہ اپنی صلیب آپ اٹھائے ہوئے اس جگہ تک باہر گیا جو کھوپڑی کی جگہ کہلاتی ہے۔‘‘ (یوحنا باب ۱۹، درس ۱۷ تا ۱۸) یہ روایت ثابت کرتی ہے کہ یسوع کی صلیب شمعون نے نہیں اٹھائی، بلکہ یسوع خود اپنی صلیب اٹھا کر کھوپڑی کی جگہ پہنچ گیا۔ ناظرین! خود فیصلہ کریں کہ تین انجیلوں کا اتفاق یقینی ہے یا ایک کا؟ یوحنا کی روایت غلط معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شمعون کو سولی پر چڑھایا گیا نہ کہ یسوع کو۔ قرآن کا بیان یقینا صحیح ہے کہ یہود نے حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی نہیں دی اور قتل بھی نہیں کیا۔ ایک شخص ان کے لیے مسیح کی شکل بن گیا اور انھوں نے اس کو صلیب پر چڑھایا۔ اب ہم ایک بات فیصلہ کن سناتے ہیں جس سے واضح ہو جائے گا کہ حضرت مسیح سولی پر نہیں چڑھائے گئے: ’’پھر یسوع پریشانی میں مبتلا ہو کر اور بھی دل سوزی سے دعا مانگنے لگا اور اس کا پسینہ گویا خون کی بڑی بڑی بوندیں ہو کر ٹپکتا تھا۔‘‘ (لوقا ب ۲۲ درس ۴۴)
Flag Counter