Maktaba Wahhabi

457 - 668
یعنی دل سوزی سے دعا قبول ہوئی یا نہیں ؟ عبرانیوں کے خط میں لکھا ہے، جو انجیل میں شامل ہے: ’’اس یسوع نے اپنی بشریت کے دنوں میں زور زور سے پکار کر اور آنسو بہا بہا کر دعائیں اور التجائیں کیں جو اس کو موت سے بچا سکتا تھا اور خدا ترسی کے سبب سے اس کی سنی گئی۔‘‘ (عبرانیوں ب ۵ درس ۷) یہ بیان اس امر کی صاف وضاحت کرتا ہے کہ گتسمنی کے باغ میں جو اس نے صلیبی موت سے بچنے کے لیے رو رو کر خدا سے دعا کی، خدا نے اس کی سنی اور اس کو موت سے بچا لیا۔ عیسائی کہتے ہیں : ’’اس کی دعا باغ میں قبول کی گئی۔ باغ سے باہر لے جا کر اس کو سولی چڑھا دیا گیا۔‘‘ لیکن یہ بات غلط ہے۔ باغ میں دعا قبول ہونے سے فائدہ؟ انجام کار صلیب پر تو چڑھائے گئے۔ جب اس امر کو مانا جائے تو اس کی دعا قبول نہیں کی گئی اور مذکورہ بالا امر اس کی تصریح کرتا ہے کہ اس کی دعا قبول کی گئی۔ پس نتیجہ صاف ہے کہ انجیل میں صلیبی واقعات نہایت ہی ایک دوسرے کے خلاف ہیں اور عیسائیوں کی نجات کا دارو مدار مسیح کے کفارے پر ہے اور مسیح کا کفارہ مسیح کی صلیب پر موقوف ہے۔ جب مسیح صلیب پر نہیں دیے گئے تو کفارہ باطل ہے۔ جب کفارہ باطل ہوا تو عیسائیوں کی نجات باطل!! اگر کفارہ کو بہ فرض محال تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ عقل اور شریعت دونوں کے خلاف ہے۔ یہ کیا اندھیر نگری ہے کہ گناہ تو عیسائی کریں اور سزا مسیح کو ملے۔ جیسا کہ کوئی بے وقوف طبیب کسی مریض کو جس کے پیٹ میں درد ہو اس کا علاج نہ کرے، بلکہ اس کے بجائے کسی تندرست کو دوا دے دے۔ حزقیل نبی کی الہامی کتاب میں خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’باپ کو بیٹے کے بدلے قتل نہ کیا جائے اور بیٹے کو باپ کے بدلے نہ مارا جائے، بلکہ جو جان شرارت کرے گی وہی مرے گی۔‘‘ (حزقیل ب۱۹) شرارت اور گناہ عیسائی کریں ، تو ان کے گناہ کا بوجھ مسیح پر کیوں ڈالا جائے؟ فافہم علاوہ ازیں کفارے کے باوجود بھی عیسائیوں کو نجات حاصل نہیں ہوئی، تورات کتاب پیدایش میں لکھا ہے: ’’جب آدم و حوا نے دانہ کھایا تو ان کو باغ عدن سے باہر نکالا گیا تو آدم کو فرمایا: تو اپنے پسینے سے روٹی کھائے گا اور عورت کو کہا گیا کہ تو دردزِہ سے بچہ جنے گی۔‘‘
Flag Counter