Maktaba Wahhabi

600 - 668
شاہ صاحب نے اس قول پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا، پس یہ قول شاہ صاحب کے نزدیک بھی مسلم ہے۔ تقلید کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ’’حجۃ اللّٰه البالغۃ‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’اعلم أن الناس کانوا قبل المائۃ الرّابعۃ غیر مجتمعین علی التقلید الخالص بمذہب معیّنٍ‘‘[1] ’’اے انسان جان لے! چوتھی صدی سے پیشتر تمام لوگ تقلید اور مذہب معین پر جمع نہ تھے۔ ‘‘ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تقلید کے ایجاد ہونے سے پہلے جو لوگ بغیر تقلید کے تھے، وہ مومن تھے یا نہیں ؟ یقینا وہ اکمل الایمان تھے۔ ثابت ہوا کہ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں سے کسی ایک کی بھی تقلید احداث اور بدعتِ سیئہ ہے، اس لیے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اپنی اور غیر کی تقلید سے سختی سے منع کرتے رہے، لیکن مقلدین حضرات تقلید کے نشے سے ایسے مخمور ہو گئے کہ اس کو چھوڑنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ۔ کیا یہ ائمہ عظام کی مخالفت نہیں تو اور کیا ہے؟ تقلید ایسی بری بلا ہے کہ انسان کو راہِ حق سے ہٹا کر یہودیت اور عیسائیت کی روش پر چلا دیتی ہے، جیسا کہ علامہ محمودالحسن دیوبندی نے ’’إیضاح الأدلۃ‘‘ میں ذکر کیا ہے: ﴿اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم﴾ [النسائ: ۵۹] ’’اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور امر والوں کی۔‘‘ ﴿ اُولِی الْاَمْرِ﴾ سے تقلید کا ثبوت ملتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص آیت مذکورہ کے بعد کا حصہ ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْل﴾ ثابت کر کے تقلید کی تردید کرے تو جواباً کہا جائے گا کہ ﴿فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْل﴾ کے بعد ﴿وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم﴾ بھی قرآن پاک میں آتا ہے۔ حالانکہ ’’وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم‘‘ ﴿فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْل﴾ کے بعدقرآن میں قطعاً ثابت نہیں ہے۔ یہ صریحاً جھوٹ اور کذب بیانی ہے۔ قرآن مجید کی تحریف و تخریب میں تقلید کو ثابت کرتے ہوئے صیہونیت کا ارتکاب کیا۔ اگر یہ لوگ تقلید نہ کرتے تو قرآن و حدیث میں تحریف کرنے کا اندیشہ ہی نہیں تھا۔ اسی طرح سنن ابی داؤد میں کتاب الصوم میں ’’عشرین لیلۃ‘‘ کا لفظ آتا ہے، لیکن شومیِ قسمت سے بیس رکعت تراویح ثابت کرنے کے لیے مقلدین
Flag Counter