Maktaba Wahhabi

244 - 699
ٹوپی و پگڑی پر اتنی شدت کے ساتھ عمل کرنے والے لوگوں کی ایک بات انتہائی قابلِ تعجب ہے کہ وہ ڈاڑھی مونڈنے یا منڈوانے کا گناہ تو مسلسل کرتے چلے جاتے ہیں اور جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو انھیں اپنے اس ارتکابِ گناہ کا کوئی شعور تک نہیں ہوتا اور نہ وہ اس سے اپنی نماز میں کوئی کمی محسوس کرتے ہیں،لیکن ٹوپی یا پگڑی کے معاملے سستی ہرگز نہیں کرتے،اس طرح ان لوگوں نے شریعت کے احکام کو الٹ کر رکھ دیا ہے کہ جو چیز اﷲ کی طرف سے حرام تھی،اسے مباح کر لیا اور جو مباح تھی،اسے واجب یا قریبِ واجب کر لیا ہے۔[1] ان الفاظ سے موصوف کے رجحان کا پتا چلتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی عمامہ و دستار واجب نہیں،بلکہ ننگے سر بھی مباح و جائز ہے،لیکن یہ ناپسندیدہ فعل ہے اور افضل و اولیٰ یہی ہے کہ ننگے سر نماز نہ پڑھی جائے۔ افشاے اسلام کا حکم و فضیلت اور موانع: اسی پر بس نہیں بلکہ موصوف نے اسی مقام پر اس بات کو بڑے زور دار طریقے سے بیان کیا ہے کہ عمامہ و ٹوپی کی ضرورت جتنی نماز کے لیے ہے،نماز سے باہر اس کی اس سے بھی زیادہ ضرورت ہے،کیونکہ یہ مسلمانوں کا شعار ہے،جو انھیں غیر مسلموں سے امتیازی حیثیت دیتا ہے،خصوصاً دورِ حاضر میں جبکہ مومن و کافر سب کے لباس(اور وضع قطع)ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں،یہاں تک کہ اب تو یہ بھی مشکل ہوگیا ہے کہ مسلمان جانے پہچانے یا انجانے ہر طرح کے مسلمانوں میں دعا و سلام کو عام کر سکے۔ گویا نہ تو مسلمان کے چہرے پر اسلامی شعار یعنی ڈاڑھی ہوتی ہے اور نہ سر پر ٹوپی یا عمامہ اور لباس بھی ایک جیسے ہوگئے ہیں،اس ساری صورتِ حال میں تو سلام کے عام کرنے کے عمل میں بھی رکاوٹ آرہی ہے،جسے کوئی جانتا ہے،اسے تو سلام کہہ لیتا ہے،لیکن جسے کوئی نہیں جانتا،اسے سلام کہنے میں یہ امر مانع ہوتا ہے کہ یہ مسلمان بھی ہے یا نہیں،کیونکہ کسی کے ماتھے پر یہ لکھا ہوا نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے اور کسی قسم کا اسلامی شعار بھی اس پر واضح نہیں ہوتا۔اب اگر وہ غیر مسلم ہے اور اسے سلام کہہ دیں تو اس ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی ہوگی،جو صحیح مسلم،سنن ابو داود و ترمذی
Flag Counter