Maktaba Wahhabi

322 - 699
کے لوگ پردے کے کتنے پابند تھے اور حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کا مفہوم مخالف یہ بنتا ہے کہ جو پیغامِ نکاح نہ دینے والا ہو،اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ عورت کو دیکھے اور یہ اسی وقت ممکن ہے،جب چہرے کا پردہ ہو،اگر وہ ننگے منہ ہو تو پھر اس حدیث کا کوئی معنیٰ ہی نہیں بنتا اور پیغامِ نکاح دینے والوں کے لیے اس لڑکی یا عورت کو دیکھنے کے سلسلے میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دوسرے عام آدمی کے لیے اُسے دیکھنا حرام ہے۔اگر امام طبری وغیرہ اہل علم کے بقول چہرہ مقامِ ستر نہیں تو پھر ان احادیث کا،اور اجازت کا کوئی مفہوم نہیں بنتا۔ بارھویں حدیث: چہرے کے پردے کے وجوب پر دلالت کرنے والی احادیث میں سے ایک معجم طبرانی،طبقات ابن سعد اور مستدرک حاکم میں مروی ہے،جس میں قیس بن زید بیان کرتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو ایک طلاق دے دی تو ان کے دو خالو حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہما ان کے پاس آئے اور طلاق کے بارے میں ان سے دریافت کیا تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ نے انھیں بتایا: ’’وَاللّٰہِ مَا طَلَّقَنِيْ عَنْ شَبَعٍ فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَدَخَلَ فَتَجَلَّبْتُ‘‘ ’’اﷲ کی قسم! ایسا تو نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جی بھر جانے کی وجہ سے طلاق دی ہو(بلکہ کوئی اور وجہ ہے)آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوٹ کر میرے پاس آئے تو میں نے بڑی چادر اوڑھ کر پردہ کر لیا۔‘‘ تب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے ہیں اور انھوں نے کہا ہے: {رَاجِعْ حَفْصَۃَ فَإِنَّھَا صَوَّامَۃٌ قَوَّامَۃٌ،وَإِنَّھَا زَوْجَتُکَ فِي الْجَنَّۃِ}[1] ’’حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف رجوع کر لیں(یعنی انھیں دوبارہ اپنے نکاح میں لوٹالیں)وہ تو بڑی نفلی روزے رکھنے اور راتوں کا قیام کرنے والی خاتون ہیں اور وہ جنت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہوں گی۔‘‘ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں،البتہ شیخ تویجری
Flag Counter