Maktaba Wahhabi

383 - 699
موجود ہی نہیں لہٰذا)تم ام شریک رضی اللہ عنہا کے گھر میں عدت گزار لو۔‘‘ پھر فرمایا: ’’ام شریک رضی اللہ عنہ تو بڑی غنی اور سخی صحابیہ ہیں اور ان کے یہاں مہمان کثرت سے ہوتے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ اگر کبھی اتفاق سے تمھارا دوپٹا گر جائے یا پنڈلی سے کپڑا اٹھ جائے تو کوئی شخص تمھارے جسم کا کوئی حصہ دیکھے،جسے کسی کا دیکھ لینا تمھیں ناپسند ہو،لہٰذا تم اپنے چچازاد بھائی حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر منتقل ہو جاؤ کہ وہ نابینا ہیں اور اگر کبھی دوپٹا اتار بھی لو گی تو وہ تمھیں نہیں دیکھ سکیں گے،چناں چہ وہ ان کے گھر منتقل ہوگئیں۔‘‘[1] ساتویں دلیل کا تجزیہ: اس حدیث سے چہرہ ننگا رکھنے کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے اور اس سے استدلال بھی ہر دو فریق نے کیا ہے،چہرے کو مقامِ ستر ماننے والوں نے بھی اور چہرے کو مقامِ ستر نہ ماننے والوں نے بھی!! اس حدیث میں جو((إِذَا وَضَعْتِ خِمَارَکِ لَمْ یَرَکِ}آیا ہے،یہاں لفظِ ’’خمار‘‘ کے بعد((لَمْ یَرَکِ}کا آنا اس بات کا قرینہ ہے کہ دیکھنے سے سارے جسم اور خصوصاً چہرے کا نہ دیکھنا مراد ہے،جیسا کہ ’’غریب الحدیث لابن الأثیر‘‘ اور ’’فتح الباري‘‘ سے خمار کی لغوی تشریح ذکر کی جاچکی ہے کہ اس سے اور ’’الاعتجار‘‘ سے مراد وہ کپڑا ہے،جو سر اور چہرے دونوں ہی کو ڈھانپ لے،لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ یہ قائلینِ وجوب حجاب کی دلیل ہے نہ کہ قائلینِ جوازِ کشف کی،جیسا کہ موجبین کے دلائل میں سے تیسری حدیث کے تحت بات گزر چکی ہے،لہٰذا اس کا تفصیلی تجزیہ تحصیلِ حاصل ہے۔ خلاصۂ بحث: قارئینِ کرام! یہ فریقِ ثانی کے سات موٹے موٹے دلائل ہیں،جن سے انھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ واجب نہیں،بلکہ وہ محض افضل و مستحب ہے اور ایسے ہی چند دیگر دلائل بھی ہیں،جن سے استدلال کیا جاتا ہے۔[2] لیکن ان کی حیثیت بھی کچھ ایسی ہی ہے،جیسی کہ ان سات کی ہے،لہٰذا ان سے صرفِ نظر کرتے
Flag Counter