Maktaba Wahhabi

680 - 699
ذکر کی جا چکی ہیں۔آدابِ مسجد کے ضمن میں یہ تو ذکر ہوگیا ہے کہ بعض اہلِ علم نے بچوں کو مسجد میں لانے اور مسجد میں ان کے لیے مکتب و مدرسہ کھولنے سے اختلاف کیا ہے اور بعض دیگر نے کہا ہے کہ اگر دوسرا کوئی انتظام نہ ہوسکتا ہو تو بوقتِ ضرورت و مجبوری بچوں کے مسجد میں پڑھنے کی رعایت ہونی چاہیے،ہاں اگر کوئی دوسرا انتظام ممکن ہو تو پھر مسجد کو بچوں کے شور و شغب وغیرہ سے بچایا جائے۔[1] مطلق بچوں کے مسجد میں آنے یا لانے کے جواز کے دلائل پر مبنی بعض احادیث بھی ہم ذکر کرچکے ہیں،جبکہ اس سلسلے میں استاذ محترم شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اﷲ صاحب مدنی کا ایک فتویٰ بھی ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور میں شائع ہو ہے،جو سوال و جواب سمیت ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔ کیا بچے مسجد میں آسکتے ہیں؟ سوال: رمضان المبارک میں خصوصاً افطاری کے وقت چھوٹے چھوٹے بچے مسجد میں آجاتے ہیں اور کچھ حضرات ساتھ لے آتے ہیں۔کچھ بچے،جن میں سے اکثر کا روزہ نہیں ہوتا،نماز سے پہلے ہی گھر لوٹ جاتے ہیں،دوسرے نماز کے دوران میں عموماً مسجد میں دوڑ بھاگ کرتے،باتیں اور شرارتیں بھی کرتے ہیں،یعنی ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ خانی وغیرہ۔کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر بچوں کو منع کریں گے تو بڑے ہو کر مسجد میں نہیں آئیں گے۔براہِ نوازش ارشاد فرمائیں کہ کتنی عمر کے بچوں کو نماز کے لیے مسجد میں لانا چاہیے؟ حدیثِ خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جسے اکثر علما حضرات سے سنا ہے کہ سات سال کی عمر کے بچے کو نماز کی ترغیب دیں،دس سال کا ہوجائے تو نہ پڑھنے پر ماریں۔مسجدیں ہی امن کی جگہ ہیں،اگر مسجد میں ہی خشوع والی نماز نصیب نہ ہو تو کہاں جائیں؟ کیونکہ بچوں کی وجہ سے جیسے اوپر ذکر کیا ہے،توجہ بٹ جاتی ہے۔بعض یہ حوالہ بھی دیتے ہیں کہ ایک دفعہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ منبر پر تشریف فرما تھے،حضرت حسین رضی اللہ عنہ جن کی عمر اس وقت چار سال تھی،وہ مسجد میں آئے تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر سے اتر کر ان کو گود میں لیا۔اس حوالے سے بچوں کو مسجد میں لانے یا آنے کا جواز نکلتا ہے؟ الجواب بعون الوہاب: بلا قید عمر کے چھوٹے بچوں کو مسجد میں آنا یا لانا درست فعل ہے۔صحیح حدیث میں وارد ہے کہ
Flag Counter