Maktaba Wahhabi

601 - 699
نے بقیع کی طرف نکال دینے کا حکم فرمایا۔[1] ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہ ان ترکاریوں کو کچی اور بدبودار کیفیت میں کھا کر مساجد تو ایک طرف ایسی مجالس و مقامات پر بھی نہیں جانا چاہیے،جہاں لوگ قرآن و حدیث کا درس سننے کے لیے جمع ہوئے بیٹھے ہوں،کیونکہ یہ آدابِ مجلس کے خلاف ہے۔ایسی مجالس کے بارے میں بھی اس حکم کا ذکر امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘(12/268)میں اور امام زرقانی رحمہ اللہ نے موطا کی شرح(1/41)میں کیا ہے۔[2] اس معاملے میں عید گاہ و جنازہ گاہ کا مسجد سے الحاق تو بڑا معقول ہے،جبکہ بعض اہلِ علم نے تو کچا لہسن و پیاز کھا کر ولیمہ و عقیقہ جیسی دعوت اور ایسی ہی دیگر تقریبات میں بھی جانے سے منع کیا ہے۔[3] یہ سب محض اس لیے ضروری ہے کہ آدمی تمام اجتماعی جگہوں پر خصوصاً مقاماتِ عبادت و ذکرِ الٰہی پر حاضری کے وقت نظافت اور پاکیزگی کی عمدہ ترین حالت میں ہو۔ مولی کا حکم: لہسن،پیاز اور گندنا کا یہ حکم تو صحیح احادیث سے ثابت ہے،جبکہ بو کو اصل علت یا باعثِ ممانعت مانتے ہوئے بعض اہلِ علم نے مولی کو بھی لہسن وغیرہ کے حکم ہی میں شمار کیا ہے،چنانچہ ابن التین نے نقل کیا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اَلْفَجْلُ إِنْ کَانَ یَظْھَرْ رِیْحُہٗ فَھُوَ کَالثُّوْمِ‘‘[4] ’’اگر مولی کی بو بھی ظاہر ہو رہی ہو تو اس کا حکم بھی لہسن ہی کا ہے۔‘‘ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے مولی کھا کر مسجد میں آنے کی ممانعت کو اس قید کے ساتھ مشروط کیا ہے کہ مولی کھانے والا آدمی بار بار ڈکاریں مار رہا ہو،تب ممنوع ہے کہ وہ مسجد میں آئے،ورنہ نہیں۔[5] اس سلسلے میں معجم طبرانی صغیر میں ایک حدیث ہے،جس میں باقاعدہ مولی کا نام وارد ہوا ہے،
Flag Counter