Maktaba Wahhabi

681 - 699
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہما کو اٹھا کر نماز پڑھتے تھے،بوقت سجدہ اسے بٹھا دیتے اور جب قیام کے لیے اُٹھنے لگتے تو اُٹھا لیتے۔ شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وَعَلَیٰ جَوَازِ إِدْخَال الصِّبْیَانِ فِي الْمَسَاجِدِ‘‘[1] یعنی اس حدیث میں بچوں کو مسجد میں لانے کا جواز ہے۔‘‘ نیز صحیح مسلم میں راوی کا بیان ہے: ’’رَأَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَؤُمُّ النَّاسَ وَ أُمَامَۃُ عَلٰی عَاتِقِہٖ‘‘ ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی امامت کراتے دیکھا،اور امامہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سوار تھی۔‘‘ سنن ابی داود میں راوی کے شک کے ساتھ نمازِ ظہر یا نمازِ عصر کا ذکر موجود ہے۔ظاہر ہے کہ فرض نماز ادا کرنے کے لیے محل و مقام مسجد ہے،انہی طُرق کے پیشِ نظر حافظ موصوف نے مذکورہ نتیجہ اخذ کیا ہے،اسی طرح دوسری روایت میں ہے کہ ایک بچہ عَمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ قراء ت میں امتیازی حیثیت کی بنا پر چھے یا سات سال کی عمر میں عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی قوم کا امام تھا۔[2] واقعہ ہذا سے ظاہر ہے کہ امامت کا شرف موصوف کو مسجد ہی میں حاصل ہوتا تھا،پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما صغر سنی کے باوجود جماعت میں شرکت فرماتے تھے،چنانچہ ان کا بیان ہے کہ میں ایک دفعہ اپنی سواری کو منیٰ میں چرنے کے لیے چھوڑ کر خود جماعت میں شریک ہوگیا تھا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے اور دیگر روایات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بچوں کا وضو،جماعت میں شرکت،عیدین،جنائز اور صفوں میں موجودگی سب ثابت شدہ امور ہیں،جن میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا۔[3] مزید براں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے لیٹ ہوگئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: {نَامَ النِّسَائُ وَالصِّبْیَانُ}’’یعنی عورتیں اور بچے سو گئے۔‘‘ اس کی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter