Maktaba Wahhabi

251 - 699
قُتِلَ،فَذٰلِکَ الَّذِيْ یَرْفَعُ النَّاسُ إِلَیْہِ أَعْیُنَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ھٰکَذَا} ’’شہید چار ہیں:ایک وہ مومن آدمی جو بڑے عمدہ ایمان والا ہے،وہ(میدانِ کارزار میں)دشمن سے برسرِ پیکار ہو اور اﷲ(کی وحدانیت و حکم)کی تصدیق کی،یہاں تک کہ جان دے دی،یہی وہ شہید ہے جسے قیامت کے دن اتنا عظیم و رفیع مرتبہ و مقام ملے گا کہ لوگ اس کی طرف نگاہیں اٹھا کر دیکھیں گے۔‘‘ سنن ترمذی میں یہ الفاظ بھی ہیں: {وَرَفَعَ رَأْسَہٗ حَتّٰی سَقَطَتْ قَلَنْسُوَتُہٗ} ’’اور(بلندی بتانے کے لیے)انھوں نے اپنے سر کو اِتنا اُٹھایا کہ سر سے ٹوپی گر گئی۔‘‘ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرنے والے حضرت فضالہ بن عبید سے بیان کرنے والے راوی ابو یزید خولانی بیان کرتے ہیں: ’’فَمَا أَدْرِيْ اَ قَلَنْسُوَۃُ عُمَرَ أَرَادَ أَمْ قَلَنْسُوَۃُ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘[1] ’’میں نہیں جانتا کہ حضرت فضالہ کی مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ٹوپی کا گرنا تھا یا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹوپی۔‘‘ آگے دوسرے تین آدمیوں کا تذکرہ بھی ہے۔امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن غریب قرار دیا ہے۔جبکہ شیخ ناصر الدین البانی نے امام سیوطی کی الجامع الصغیر کی جو صحیح و ضعیف دو قسموں میں تقسیم کی ہے،تو اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے انھوں نے اسے ضعیف الجامع(2/3/259)میں ذکر کیا ہے،ایسے ہی ایک دوسری حدیث الرویانی اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے،جس میں وہ بیان کرتے ہیں: {کَانَ(صلی اللّٰه علیہ وسلم)یَلْبَسُ الْقَلَانِسَ تَحْتَ الْعَمَائِمِ وَبِغَیْرِ الْعَمَائِمِ وَالْعَمَائِمَ بِغَیْرِ الْقَلَانِسِ وَکَانَ یَلْبَسُ الْقَلَانِسَ الْیَمَانِیَّۃَ}[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ کے نیچے ٹوپی پہنتے تھے اور بغیر عمامہ کے صرف ٹوپی بھی اور ٹوپی کے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یمنی ٹوپیاں بھی پہنا کرتے تھے۔‘‘
Flag Counter