Maktaba Wahhabi

265 - 699
{لَا تُسَافِرُ الْمَرْأَۃُ إِلَّا مَعَ زَوْجٍ أَوْ ذِيْ مَحْرَمٍ}[1] ’’کوئی عورت اپنے شوہر یا محرم کے سوا کسی کے ساتھ سفر نہ کرے۔‘‘ غلام اس ارشاد میں اس لیے داخل نہیں،کیوںکہ اگر وہ آزاد ہوجائے تو اپنی آقا سے نکاح کر سکتا ہے،جیسا کہ اس عورت کا بہنوئی بھی اس کی بہن کو طلاق دینے کے بعد اس سے نکاح کر سکتا ہے،کیوںکہ وہ محرم شمار نہیں ہوتا اور ایسے ہی غلام بھی محرم نہیں ہوتا اور بہنوئی کی حرمت بھی عارضی ہوتی ہے،جو طلاق کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے اور ایسے ہی بے غرض بوڑھا،چاہے عمر رسیدہ ہی سہی،لیکن محرم نہیں ہوسکتا۔ سفر میں رفاقت کا جواز صرف اس محرم کے لیے ہے جو دائمی محرم ہو۔(جیسے باپ،بھائی،بیٹا وغیرہ ہیں)یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے: ’’سَفْرُ الْمَرْأَۃِ مَعَ عَبْدِھَا ضَیْعَۃٌ‘‘[2] ’’عورت کا اپنے غلام کے ساتھ سفر کرنا(اپنے شرف کو)ضائع کرنا ہے۔‘‘ یہی الفاظ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے مسند بزار اور طبرانی اوسط میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بھی مروی ہیں،لیکن وہ مرفوع حدیث صحیح نہیں ہے۔[3] پس معلوم ہوا کہ سورۃ النور کی آیت میں محرم رشتے داروں اور بعض دوسرے لوگوں کے سامنے اظہارِ زینت کی اجازت دی گئی ہے،جبکہ سفر والی حدیث میں محرم رشتے داروں کے سوا کسی دوسرے کے ساتھ نکلنے کی اجازت نہیں۔[4] اس آیت میں چچاؤں اور ماموؤں کا ذکر نہیں آیا،حالانکہ وہ بھی محرم ہیں،ایسے ہی دودھ شریک(رضاعی)محارم کا تذکرہ بھی نہیں ہوا،جب کہ تمام فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان سب کا حکم بھی اُن محارم کا ہے،جن کا مذکورہ آیت میں ذکر آگیا ہے۔
Flag Counter