Maktaba Wahhabi

269 - 699
اس سے معلوم ہوا کہ عبدالرحمن بن عبداﷲ بن دینار کا اس روایت کو مرفوعاً بیان کرنا صحیح نہیں ہے،جب کہ امام منذری رحمہ اللہ نے مختصر السنن میں اس راوی عبدالرحمن کے بارے میں کہا ہے: ’’وَفِیْہِ مَقَالٌ‘‘[1] ’’اس راوی پر کلام کیا گیا ہے۔‘‘ جو یوں ہے کہ یہ راوی اگرچہ رجالِ صحیح بخاری میں سے ہیں،مگر ان کا حافظہ کمزور تھا اور تفرد و مخالفت کے وقت ایسا راوی قابلِ حجت نہیں ہوتا،لہٰذا یہ روایت مرفوعاً صحیح نہیں ہے۔[2] اب رہا معاملہ موقوف روایت کا تو وہ بھی صحیح نہیں ہے،کیونکہ اس کا دارومدار بھی ام محمد بن زید پر ہے اور وہ مجہول راویہ ہیں۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘(1/2/69)میں اس روایت کے مرفوع ہونے کو راجح قرار دیا ہے،جو کہ صاحبِ ’’تمام المنۃ‘‘ کے بقول اس راویہ کی جہالت،ان کے ذہن میں مستحضر نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔البتہ خود انھوں نے اپنی دوسری کتاب ’’السیل الجرار‘‘(1/161)میں ’’لَا تَقُوْمُ بِہٖ حُجَّۃٌ‘‘ کہہ کر خود ہی اپنی بات کا استدراک کر لیا ہے۔[3] امام خطابی رحمہ اللہ نے معالم السنن شرح سنن ابو داود میں لکھا ہے کہ عورت کے لیے دورانِ نماز کن کن اعضاے جسم کو ڈھانپنا واجب ہے؟ اس سلسلے میں اختلاف ہے۔امام شافعی اور امام اوزاعی رحمہ اللہ کے نزدیک چہرے اور ہاتھوں کے سوا سارے جسم کو ڈھانپے اور اسی کی روایت حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما اور امام عطاء رحمہ اللہ سے بھی ملتی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ دورانِ نماز اس کے جسم کا ناخن برابر حصہ بھی ننگا نہیں ہونا چاہیے۔امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر عورت نے اس حال میں نماز پڑھ لی کہ اس کے بال یا پاؤں کے اوپر والے حصے ننگے ہوگئے تو اگر وقت باقی ہو تو وہ اس نماز کو دہرائے۔احناف کا مسلک نقل کرتے وقت لکھتے ہیں: ’’ان کے نزدیک اگر بالوں،ران اور پیٹ کا ایک تہائی یا چوتھائی حصہ کھلا ہو تو اس کی نماز ناقص ہے اور اگر اس سے کم کھلا ہو تو پھر نہیں۔کم از کم کی حد بندی میں ان کے یہاں
Flag Counter