Maktaba Wahhabi

272 - 699
حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جائز ہے اور یہی مسلک قوی تر ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پاؤں کو زینت ظاہرہ قرار دیا ہے،چنانچہ ابن ابی حاتم نے ان سے روایت بیان کی ہے کہ(سورت نور کی آیت کے الفاظ)﴿وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا﴾[النور:31] میں﴿مَا ظَھَرَ مِنْھَا﴾سے مراد وہ انگوٹھیاں ہیں،جو چاندی کی ہوتی ہیں اور پاؤں کی انگلیوں میں پہنی جاتی ہیں۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے عورتیں اپنے چہرے اور ہاتھوں کی طرح ہی پاؤں بھی ظاہر کر لیا کرتے تھیں۔وہ اپنی چادروں کے پلو گِرا کر رکھتی تھیں،لیکن جب وہ چلتی تھیں تو کبھی پاؤں کھل جاتا تھا۔وہ موزے اور بوٹ(جوتے)پہن کر تو نہیں چلا کرتی تھی اور پاؤں کو نماز میں ڈھانپنے کا عمل انسان کے لیے حرجِ عظیم کا باعث ہے۔‘‘ پھر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی موقوف روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’(اگرچہ عورت نماز کے وقت اپنے پاؤں کے اوپر والے حصے کو ڈھانپ کر ہی کیوں نہ کھڑی ہو لیکن)جب وہ سجدہ کرے گی تو پھر پاؤں کے اندرونی حصوں(تلوؤں)کے ظاہر ہوجانے کا امکان ہوتا ہے۔‘‘[1] گویا نماز میں عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ جب اپنے گھر میں ہو تو چہرہ،دونوں ہاتھ اور پاؤں ننگے رکھ سکتی ہے۔نماز میں ستر پوشی کا عام حالت کی ستر پوشی سے کوئی ربط و تعلق نہیں،بلکہ بعض اعضا کو عورت نماز میں ظاہر کر سکتی ہے،عام حالات میں نہیں اور بعض اعضا کو شوہر اور دوسرے محرم رشتے داروں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے،مگر نماز میں نہیں۔چاہے وہ کسی بند جگہ میں اکیلی ہی کیوں نہ ہو،مثلاً عورت نماز میں دوپٹا لیے بغیر نماز پڑھے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی،جبکہ اپنے گھر میں شوہر اور محرم رشتے داروں کے سامنے وہ سر ننگا رکھ سکتی ہے۔گویا یہ نماز میں زینت اختیار کرنا،حقوق اﷲ میں سے ایک حق ہے اور یہ زینت لوگوں سے پردہ کرنے کے لیے نہیں ہے،بلکہ اﷲ کے دربار میں حاضری کا ایک لازمی اور واجب ادب ہے۔ ایسے ہی مردوں کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے کندھوں کو ننگا رکھیں،لیکن جب نماز کا وقت ہو تو
Flag Counter