Maktaba Wahhabi

296 - 699
کے باوجود حیا داری و پردہ داری کی ترغیب والے فعل ہی کو اپنایا اور ہمیشہ اپنے چہرے کا بھی پردہ کیا،چنانچہ سعید بن منصور،ابن المنذر اور امام بیہقی نے سنن کبریٰ میں عاصم احول سے روایت بیان کی ہے،جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم(ایک عمر رسیدہ فاضل خاتون)حضرت حفصہ بنت سیرین رحمہ اللہ کے پاس جایا کرتے تھے،انھوں نے ایک بڑی چادر(جلباب)ایسی بنا رکھی تھی جس سے وہ نقاب ڈالے رکھتی تھیں،ہم ان سے کہتے کہ اﷲ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے،اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآئِ الّٰتِیْ لاَ یَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْھِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍم بِزِیْنَۃٍ﴾[النور:60] ’’اور وہ عمر رسیدہ بوڑھی عورتیں جو نکاح کا کوئی ارادہ(داعیہ)نہیں رکھتیں،ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنی چادریں اتار لیں،اس شرط کے ساتھ کہ وہ زینت کی نمایش کرنے والی نہ ہوں۔‘‘ جبکہ کپڑوں سے مراد جلباب ہے تو وہ کہا کرتی تھیں: ’’أِيُّ شَیْیٍٔ بَعْدُ؟‘‘(ان الفاظ کے بعد ارشادِ الٰہی کے کیا الفاظ ہیں؟) ہم کہتے کہ آگے ہیں: ﴿وَاَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّھُنَّ﴾[النور:60] ’’اگر وہ حیا داری اختیار کریں تو ان کے لیے یہی بہتر ہے۔‘‘ تو وہ فرماتیں: ’’ھُوَ إِثْبَاتُ الْحِجَابِ‘‘(یہی الفاظ پردے کو ثابت کرتے ہیں) امام بغوی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں امام ربیعۃ الرائے کا یہاں تک قول نقل کیا ہے کہ اس آیت میں ’’قواعد‘‘ سے مراد انتہائی عمر رسیدہ عورتیں ہیں،جن میں کوئی جاذبیت باقی نہ رہی ہو(اور ان کے صنفی جذبات سرد پڑ چکے ہوں)لیکن اگر اس آگ میں ابھی کوئی چنگاری باقی ہے تو ایسی عمر رسیدہ عورت اس آیت میں داخل نہیں ہوگی۔[1] اس سے قطع نظر اگر حقیقتاً بھی ایک عورت ایسی ہے جو واقعی اس حد سے بھی گزر چکی ہے تو اس کے سامنے بھی افضل عمل کے لیے حضرت حفصہ بنت سیرین ایک بہترین نمونہ ہیں۔
Flag Counter