Maktaba Wahhabi

301 - 699
امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں مذکورہ دونوں تفسیریں اور جلباب کا لغوی معنیٰ بھی ذکر کیا اور لکھا ہے: ’’وَالصَّحِیْحُ أَنَّہُ الثَّوْبُ الَّذِيْ یَسْتُرُ جَمِیْعَ الْبَدَنِ‘‘[1] ’’صحیح یہی ہے کہ جلباب اس کپڑے کو کہا جاتا ہے،جو سارے بدن ہی کو ڈھانپ لے۔‘‘ امام نسفی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ﴾کے تحت لکھا ہے: ’’جلباب وہ کپڑا ہے جو سارے جسم کو مستور کر لے اور ان الفاظ کا معنیٰ یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادروں کو اوڑھ لیں،جن سے اپنے چہروں اور جوانب کو ڈھانپ لیں۔‘‘[2] اسی طرح امام بیضاوی رحمہ اللہ(ص:409)نے بھی﴿یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ﴾کے تحت لکھا ہے: ’’عورتیں جب کسی ضرورت سے اپنے گھر سے باہر نکلیں تو اپنی چادروں میں اپنے چہرے اور بدن ڈھانپ کر نکلیں۔‘‘[3] شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ اور اپنی کتاب ’’حجاب المرأۃ ولبأسھا في الصلاۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’آیتِ حجاب کے نزول سے پہلے عورتیں جلباب کے بغیر گھروں سے باہر نکلا کرتی تھیں اور مرد ان کے چہرے اور ہاتھ دیکھتے تھے،اس وقت عورت کے لیے یہ جائز تھا کہ وہ چہرے اور ہاتھوں کو ننگا رکھ لے اور اس وقت ان اعضا پر مرد کی نظر پڑنا بھی جائز تھا،کیونکہ ان اعضا کا اظہار جائز تھا،پھر جب اﷲ تعالیٰ نے یہ آیتِ حجاب نازل فرمائی تو عورتوں نے مردوں سے مکمل حجاب اختیار کر لیا۔‘‘[4] نیز آگے چل کر وہ لکھتے ہیں: ’’جلباب سے مراد وہ بڑا کپڑا ہے،جسے حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر اہلِ علم
Flag Counter