Maktaba Wahhabi

313 - 699
حاضر ہوئی اور سارا ماجرا سنایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم فرمایا: ’’وہ حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا کے گھر میں عدت کے دن گزاریں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’وہ ایسی(مالدار و فیاض)عورت ہیں کہ میرے صحابی رضی اللہ عنہم بکثرت ان کے یہاں جاتے رہتے ہیں،لہٰذا تم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے پاس عدت گزار لو،وہ تو نابینا آدمی ہیں،تم اس کے پاس اپنی چادر اتار سکو گی۔‘‘ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: {فَإِنَّکِ إِذَا وَضَعْتِ خِمَارَکِ لَمْ یَرَکِ}[1] ’’اگر تم ان کی موجودگی میں اپنی اوڑھنی اتار بھی لو گی تو وہ تم کو نہیں دیکھ پائیں گے۔‘‘ مسند احمد کی روایت میں بھی ایسے ہی الفاظ ہیں،جبکہ سنن نسائی میں حضرت ام شریک رضی اللہ عنہا کے مالدار و فیاض اور مہمان نواز ہونے کے تذکرے کے علاوہ یہ بھی مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {فَإِنِّيْ أَکْرَہُ أَنْ یَّسْقُطَ عَنْکِ خِمَارُکِ أَوْ یَنْکَشِفَ الثَّوْبُ عَنْ سَاقَیْکِ فَیَرَیٰ الْقَوْمُ مِنْکِ بَعْضَ مَا تَکْرَھِیْنَ}[2] ’’مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ تم سے کبھی اوڑھنی گر جائے یا آپ کی پنڈلی سے کپڑا اُٹھ جائے اور تمھارے جسم کا کوئی حصہ لوگ دیکھ لیں،جس کا دیکھنا تم پسند نہیں کرتی ہو۔‘‘ اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ غیر محرم نابینا مرد کی موجودگی میں اوڑھنی اتار لے اور یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ عورت اپنے چہرے اور دوسرے اعضا کو ڈھانپ کر رکھے،جیسا کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے پتا چل رہا ہے اور اس حدیث میں لفظ((خِمَارِ}کے بعد جو((لَمْ یَرَکِ}آیا ہے،وہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ نہ دیکھنے سے چہرہ نہ دیکھنا مراد ہے،کیونکہ ’’خمار‘‘ کی لغوی تشریح جو فتح الباری کے حوالے سے پہلے ذکر کی جاچکی ہے،اس سے مراد وہ کپڑا ہے جو چہرے کو ڈھانپ لے،لہٰذا یہ حدیث بھی قائلینِ وجوب کی دلیل ہے۔
Flag Counter