Maktaba Wahhabi

315 - 699
دلیل ہے کہ عورت کا چہرہ(احرام میں)مرد کے جسم کی طرح ہے۔لہٰذا(جس طرح مرد کے لیے جسم کے اعضا کے مطابق سِلا ہوا لباس پہننا منع ہے ایسے ہی)عورت کے لیے چہرے کے سائز کے مطابق سِلا ہوا نقاب و برقع پہننا منع ہے،البتہ چادر وغیرہ سے چہرے کو ڈھانپنا منع نہیں ہے اور یہی صحیح تر قول ہے۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے چہرے اور ہاتھوں کو برابر قرار دیا ہے اور دستانے اور نقاب دونوں سے منع فرمایا ہے،جبکہ یہ بات معروف ہے کہ ہاتھوں کا پردہ حرام نہیں ہے،بلکہ وہ محرم مرد کے جسم کی طرح ہیں،جن کو ان کے برابر سلے ہوئے کپڑے(دستانوں)سے ڈھانپنا منع ہے۔ایسے ہی چہرہ ہے کہ اس کا چہرے کے مطابق سِلے نقاب وغیرہ سے ڈھانپنا منع ہے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے(منہ کے برابر سلے)نقاب کے ممنوع ہونے کے سوا احرام کی حالت میں چہرہ ننگا رکھنے کے وجوب پر دلالت کرنے والا کوئی ایک حرف بھی صادر نہیں ہوا ہے اور نقاب کی ممانعت دستانوں کی ممانعت جیسی ہے اور چہرے کی نسبت نقاب ایسے ہی ہے،جیسے ہاتھوں کی نسبت دستانے ہیں۔یہ بحمد اﷲ واضح بات ہے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مستدرک حاکم(1/454)میں ثابت ہے کہ وہ احرام کی حالت میں اپنا چہرہ ڈھانپ کر رکھا کرتی تھیں اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’قافلے ہمارے پاس سے گزرتے،جبکہ ہم نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ احرام کی حالت میں ہوتیں،جب وہ لوگ ہمارے پاس سے گزرنے لگتے تو ہم اپنے چہروں پر چادر ڈال لیتیں اور جب وہ آگے نکل جاتے تو پھر ہم چہرے ننگے کر لیتیں۔‘‘[1] اسی اقتباس کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ احرام کی حالت میں غیر مردوں کی موجودگی میں جو چہرے کا پردہ کرنا ہے تو اس میں یہ شرط لگانا کہ وہ کپڑا بہر صورت چہرے سے الگ رہنا چاہیے،جیسا کہ قاضی ابو یعلی اور بعض دیگر فقہا نے ذکر کیا ہے،اس کی کوئی اصل نہیں اور نہ کوئی دلیل ہے،بلکہ وہ نظریہ ضعیف ہے۔ صاحب المغنی(امام ابن قدامہ)نے کہا ہے کہ یہ شرط میں نے نہ تو امام احمد کے کسی ارشاد میں پائی ہے اور نہ اس کے بارے میں کوئی حدیث ہے،بلکہ بظاہر اس کا برعکس ہی صحیح ہے،کیونکہ سر کے اوپر سے چہرے پر لٹکائے گئے کپڑے میں یہ ہر گز ممکن نہیں کہ وہ چہرے پر نہیں لگے گا اور اگر یہ
Flag Counter