Maktaba Wahhabi

338 - 699
’’وَتَمْنَعُ الشَّآبَّۃُ مِنْ کَشْفِ وَجْھِھَا خَوْفَ الْفِتْنَۃِ‘‘[1] ’’نوجوان عورت یا لڑکی کو معاشرے میں پیدا ہونے والے بگاڑ کے خدشے کی بنا پر چہرہ ننگا رکھنے سے روکا جائے گا۔‘‘ یہاں فتنہ و بگاڑ کے خدشے کی بات کی گئی ہے،جبکہ اس کا معیار کتاب الفتن میں احمد عز الدین بیانونی کے بقول عوام الناس نہیں بلکہ اس فتنے کو ایک خاص تناظر میں معلوم کیا جائے گا،ورنہ عوام الناس کی نسبت جن میں عورت ننگے منہ عموماً چلتی ہے،ان میں بگاڑ پیدا ہونے سے تو امن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔[2] لہٰذا اس علت(امن الفتنہ)کی رو سے بھی عوام الناس میں عورت کا ننگے منہ بے مہابا نکلنا قطعاً ممنوع بنتا ہے اور بگاڑ سے امن کا محض کھوکھلا دعویٰ کر کے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جب فتنہ و بگاڑ کا خوف نہ ہو تو چہرے کا پردہ ضروری نہیں اور عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ ننگے منہ چلتی پھرتی رہے،جب وہ عوام الناس ہیں تو فتنہ و بگاڑ کا پیدا نہ ہونا محال ہے اور جب لا محالہ یہ خدشہ موجود ہے تو پھر جوازِ کشف کیسے کشید کیا جا سکتا ہے؟ جب اﷲ تعالیٰ نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما پر پردے کو فرض و واجب قرار دیا،جن کا معاشرہ ان قدسی نفوس افراد سے مرکب تھا،جنھیں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و زیارت کا شرف حاصل تھا اور جو علم و عمل،تقویٰ و ورع،خوف و خشیتِ الٰہی اور انابت الی اﷲ کے انتہائی بلند مقام پر فائز تھے،جب ایسے افرادِ معاشرہ کی موجودگی میں بھی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما پردے پر مامور تھیں تو آج کی خواتین اس پر مامور کیوں نہ ہوں گی؟ جبکہ معاشرے کی حالت ہی سخت دگر گوں ہوچکی ہے،بگاڑ واقع ہوچکا ہے،افرادِ معاشرہ ان اوصاف سے تہی دست ہوچکے ہیں یا کم از کم ان اوصاف میں سخت ضعف و کمزوری آچکی ہے،ایسے میں آج کی خواتین پر چہرے کا پردہ یقینا واجب ہی بنتا ہے اور افرادِ معاشرہ کو مجموعی طورپر دیکھ لیا جائے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا مذہب کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ وہ بھی ایسے میں چہرے کے پردہ کے وجوب ہی کے قائل ہیں۔[3]
Flag Counter