Maktaba Wahhabi

359 - 699
میں روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’ھٰذَا مُرْسَلٌ،خَالِدُ بْنُ دُرَیْکٍ لَمْ یُدْرِکْ عَائِشَۃَ‘‘[1] ’’یہ روایت مرسل ہے،کیونکہ اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والے راوی خالد بن دریک نے انھیں نہیں پایا۔‘‘ جب خالد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو نہیں پایا،مگر بلا واسطہ ان سے روایت بیان کر دی ہے تو اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ یہاں خالد اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین انقطاع پایا جاتا ہے،لہٰذا یہ سند منقطع ہے اور حدیث مرسل اور ضعیف ہے۔ امام بیہقی نے بھی اس حدیث کو سنن کبریٰ میں دو مقامات پر روایت کیا ہے اور انھوں نے بھی امام ابو داود رحمہ اللہ سے اس کا مرسل ہونا نقل کیا ہے۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس حدیث کو وارد کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’اسے امام ابو داود اور ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے مرسل کہا اور بتایا ہے کہ خالد بن دریک نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی حدیث نہیں سنی۔واللّٰه اعلم‘‘[2] محدّثِ کبیر حافظ عبدالحق اشبیلی اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی یہی بات کہی ہے اور اس سند میں قتادہ کا خالد بن دریک سے عنعنہ بھی ہے،جبکہ وہ مدلس ہے۔[3] اس روایت کے ضعف کا دوسرا سبب یہ ہے کہ تلخیص السنن میں امام منذری رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’اس حدیث کی سند میں ایک راوی سعید بن بشیر ہے،جو نزیلِ دمشق اور بنی نصر کا آزاد کردہ غلام ابو عبدالرحمن سعید بن بشیر النصری ہے،اس پر کئی محدّثین نے کلام کیا ہے۔‘‘[4] امام ابن مہدی نے اس راوی کو متروک شمار کیا ہے اور امام احمد،ابن معین،امام بخاری کے استاد ابن المدینی اور امام نسائی رحمہم اللہ نے اس راوی کو ضعیف کہا ہے۔[5]
Flag Counter