Maktaba Wahhabi

370 - 699
کتاب میں دو احادیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ واقعہ نزولِ حجاب کے بعد کا ہے۔[1] جبکہ شیخ محمد صالح العثیمین نے اپنی پردہ سے متعلقہ کتاب میں لکھا ہے: ’’حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ میں مذکورہ واقعہ عید سے تعلق رکھتا ہے اور عید کی مشروعیت 2ھ میں ہوئی،جبکہ سورۃ الاحزاب میں نازل ہونے والے پردے کے حکم کا نزول 2ھ یا 3ھ میں ہوا۔لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ واقعہ نزولِ حجاب سے پہلے کا ہے۔‘‘[2] لیکن اگر یہ مان ہی لیا جائے کہ یہ واقعہ نزولِ حجاب کے بعد کا ہے،تب بھی بات نہیں بنتی،کیونکہ دوسرے دو احتمال پھر بھی باقی رہ جاتے ہیں اور معروف اصولی قاعدہ ہے: ’’مَا تَطَرَّقَ إِلَیْہِ الْإِحْتِمَالُ سَقَطَ بِہِ الْإِسْتَدْلَال‘‘ ’’جس میں احتمال واقع ہوجائے،اس سے استدلال کرنے کی صلاحیت ساقط ہوجاتی ہے۔‘‘ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ شیخ حمود التویجری نے اپنی کتاب ’’الصارم المشہور‘‘ میں لکھا ہے: ’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس بات کا ذکر تو نہیں کہ خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو ننگے منہ دیکھا تھا اور نکیر کیے بغیر اسے اس کے حال پر ہی چھوڑ دیا تھا۔لہٰذا جب یہ بات اس میں مذکور ہی نہیں ہے تو یہ حدیث عورت کے لیے ننگے منہ رہنے کے جواز کی رائے رکھنے والوں کی دلیل کیسے بن سکتی ہے؟ اگر کسی کو اس دعوے پر اصرار ہو کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو ننگے منہ دیکھا تھا اور اسے اس حال پر برقرار رہنے دیا تھا تو وہ اس بات کی وضاحت پر مبنی کوئی دلیل پیش کرے۔بات دراصل صرف اتنی ہے کہ اس حدیث میں آمدہ ذکر کی بنا پر زیادہ سے زیادہ صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اس عورت کا ننگا چہرہ دیکھا اور اس کے چہرے کا وصف بیان کر دیا،جو محض اس لیے ہوگیا ہوگا کہ اس عورت کا پردہ بلا قصد و ارادہ اس کے چہرے سے اٹھ گیا ہوگا،ورنہ یہ تو نہیں کہ عورتیں ہوتی ہی ننگے منہ تھیں اور نہ یہ کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس عورت کا ننگا چہرہ دیکھا ہو۔ ’’یہ بات صرف ایک مفروضہ بھی نہیں کہ بلا قصد و ارادہ اس عورت کا چہرہ کھل گیا اور
Flag Counter