Maktaba Wahhabi

378 - 699
اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ننگے منہ دیکھا اور اس حالت پر اسے برقرار رہنے دیا،بلکہ زیادہ سے زیادہ اس حدیث میں یہ ذکر آیا ہے کہ وہ عورت خوبصورت تھی،جبکہ اس سے یہ لازم تو نہیں آتا کہ وہ ننگے منہ تھی اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی حالت پر رہنے دیا تھا،بلکہ ممکن ہے کہ بلا قصد و ارادہ کہیں اس کے چہرے سے پردہ اُٹھ گیا ہو اور بعض لوگوں نے اسے دیکھ لیا ہو،جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ والی حدیث کے بارے میں بھی ہم نے وضاحت کی ہے اور یہ بھی عین احتمال ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس عورت کو پہلے دیکھا ہوا ہو اور وہ جانتے ہوں کہ وہ حسین و جمیل عورت ہے،کیونکہ جس وقت فضل رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو دیکھا تھا،اس وقت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وہاں موجود نہیں تھے،بلکہ انھیں تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں،بچوں اور عورتوں کے ساتھ رات کے وقت ہی مزدلفہ سے منیٰ روانہ کر دیا تھا،جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم(بحوالہ مشکوٰۃ:2/803 تحقیق البانی)ایسے ہی سنن ابو داود و نسائی اور ابن ماجہ(مشکوۃ:2/803)میں خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ ’’لہٰذا ظاہر ہے کہ یہ واقعہ انھوں نے اپنے بھائی فضل سے سنا ہوگا اور انھوں نے بھی یہ تو نہیں کہا کہ وہ عورت ننگے منہ تھی،ان کا اسے خوبصورت کہنا ممکن ہے اچانک نظر پڑنے کا نتیجہ ہو،یا پھر ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے سے اسے پہچانتے ہوں اور اس پر مستزاد یہ کہ عورت کا حسن تو اس کے باپردہ ہونے کے باوجود اس کے قدو قامت ہی سے معلوم ہوجاتا ہے،جیسا کہ عربی لغت و شعر میں یہ بات معروف ہے،لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ وہ عورت ننگے منہ ہی ہو۔ 2۔ اس حدیث کا دوسرا جواب یہ ہے کہ وہ عورت حالتِ احرام میں تھی اور غیر محرم لوگوں کے عدمِ وجود کی صورت میں اسے چہرہ ننگا رکھنے کی اجازت تھی اور کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ فضل کے سوا کسی دوسرے شخص نے بھی اس عورت کو دیکھا ہو اور(نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار ہونے کی وجہ سے)فضل رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھا اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اسے زبانی منع کیا،بلکہ ان کی ٹھوڑی پکڑ کر ان کا چہرہ ہی دوسری طرف پھیر دیا تھا،اس عورت کا چہرہ احرام کی وجہ سے ننگا تھا،نہ کہ ننگا رکھنے کے جواز کی بنا پر۔لہٰذا یہ حدیث قائلین کشفِ جواز کی دلیل نہیں بن سکتی۔[1]
Flag Counter