Maktaba Wahhabi

380 - 699
سے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں منقول ہے۔[1] شیخ فرید الہنداوی کے بقول سیاقِ حدیث کی رو سے یہ بات بعید از امکان لگتی ہے کہ اس عورت نے ہر کس و ناکس کے لیے اپنے چہرے کو کھلا چھوڑا ہوا ہو،بلکہ عین امکان ہے کہ اس نے اپنے آپ کو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں نکاح کے لیے پیش کرتے وقت اپنے چہرے سے نقاب اٹھایا ہو،تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بچشم خود دیکھ کر کوئی فیصلہ کر سکیں اور شیخ حمود التویجری سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’کئی احادیث کی رو سے ثابت ہے کہ منگنی کی غرض سے عورت کو دیکھنا مباح ہے(جیسا کہ ان میں سے بعض احادیث گزر چکی ہیں)لہٰذا اس مذکورہ حدیث میں منگنی کا ارادہ رکھنے والے شخص کے سوا کسی دوسرے کے سامنے چہرہ ننگا کرنے کے جواز پر دلالت کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے،ورنہ یہ چیز حدیث کو بے محل یا نا مناسب مقام پر محمول کرنے والی بات ہوگی۔‘‘[2] جبکہ اس حدیث کی شرح کے دوران میں فتح الباری میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بڑی عمدہ بحث ذکر کی ہے،جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’اگر عورت سے شادی کا ارادہ ہو تو اس کے اوصاف و محاسن کو بغور دیکھنا جائز ہے،اگرچہ پہلے سے منگنی نہ بھی کی ہوئی ہو اور نہ پہلے سے شادی کی رغبت ہو۔‘‘ آگے چل کر خاص نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معصوم ہونے کی بنا پر لکھتے ہیں: ’’وَالَّذِيْ تَحُرَّرَ عِنْدَنَا أَنَّہٗ صلی اللّٰه علیہ وسلم لَا یَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّظَرُ إِلَی الْمُؤْمُنَاتِ الْأَجْنَبِیَّاتِ بِخِلَافِ غَیْرِہٖ‘‘[3] ’’ہمارے نزدیک جو بات طے ہے وہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے برعکس نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مومن غیر محرم عورتوں کی طرف دیکھنا حرام نہیں تھا(کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو معصوم تھے)۔‘‘ حافظ موصوف کی اس بات کو سامنے رکھا جائے تو پھر مذکورہ حدیث سے چہرہ ننگا رکھنے کے جواز پر استدلال کرنا اور بھی غیر منطقی ہوجاتا ہے۔
Flag Counter