Maktaba Wahhabi

401 - 699
صحیح مسلم،سنن ابو داود،ترمذی اور نسائی میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں بھی ’’خُمرہ‘‘ کا لفظ وارد ہوا ہے،ایسے ہی صحیح مسلم و سنن نسائی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بھی یہ لفظ آیا ہے،نیز بعض دیگر صحابہ و امہات المومنین رضی اللہ عنہم کی مرویات میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔[1] ایسے ہی بعض آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ’’طنفسہ‘‘ کا لفظ وارد ہوا ہے اور یہ بھی دراصل چٹائی ہی ہوتی ہے،لیکن اس میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ اس کے نیچے کوئی مخملیں چیز جیسے اسفنج وغیرہ لگا کر اسے کچھ نرم و گداز کیا گیا ہوتا ہے،چنانچہ تاریخِ امام بخاری کی روایت میں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’مَا أُبَالِيْ لَوْ صَلَّیْتُ عَلٰی خَمْسِ طَنَافِسٍ‘‘[2] ’’میں اگر پانچ تہوں والی گداز چٹائی پر بھی نماز پڑھ لوں تو مجھے پروا نہیں۔‘‘ یعنی اس کے جائز ہونے پر بھی مجھے کوئی تردد نہیں اور اکہری چٹائی پر نماز کے جواز کی تو بات ہی چھوڑیں۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کا یہ اثر مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی مروی ہے،لیکن وہاں پانچ تہوں کی بجائے اوپر نیچے چھے تہوں یا چھے چٹائیوں کے اوپر نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں بعض دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بھی آثار نقل کیے ہیں،جن میں ان کے تہہ دار موٹی گداز چٹائی پر نماز پڑھنے کا ذکر آیا ہے،چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں آیا ہے: ’’إِنَّہٗ صَلّٰی عَلٰی طَنْفَسَۃٍ‘‘ ’’انھوں نے گداز چٹائی پر نماز پڑھی۔‘‘ حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے: ’’إِنَّہٗ صَلّٰی عَلیٰ طَنْفَسَۃٍ‘‘ ’’انھوں نے ایسی ہی چٹائی پر نماز پڑھی۔‘‘ مشہور تابعی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’لَا بَأْسَ بِالصَّلَاۃِ عَلَی الطَّنْفَسَۃِ‘‘[3] ’’گداز چٹائی پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ جمہور علما و فقہا ان آثار کی بنا پر ایسی مخملیں گداز چٹائی پر نماز کے جواز کے قائل ہیں۔
Flag Counter