Maktaba Wahhabi

409 - 699
سکتی ہے۔غالباً اس لیے شریعت نے نہ صرف خانہ کعبہ بلکہ اس کے مقابل آنے والی(اُوپر کی)پوری فضا کو قبلے کا درجہ دیا ہے،تاکہ اُونچی اور بلند سے بلند جگہ پر بھی نماز ادا کی جاسکے،جیسا کہ ’’المغني لابن قدامۃ‘‘(2/476 محقق)سے پتا چلتا ہے۔شیخ عبدالرحمن جزیری مصری نے ’’الفقہ علی المذاہب الأربعۃ‘‘(1/206)میں ہوائی جہاز(اور سٹیمروریل گاڑی)کو کشتی پر قیاس کرتے ہوئے اس میں نماز کو درست قرار دیا ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’وَمَثْلَ السَّفِیْنَۃِ الْقُطْرُ الْبُخَارِیَّۃُ وَالطَّائِرَاتُ الْجَوِیَّۃُ وَنَحْوَھَا‘‘ ’’بحری جہاز کی طرح ہی سٹیمر،ریل گاڑی اور ہوائی جہاز وغیرہ بھی ہیں۔ ہوائی جہاز میں اشارے سے نماز کے بارے میں سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ایک سوال کیا گیا تو اس پر ان کا فتویٰ صادر ہوا: ’’مسلمان پر واجب یہ ہے کہ جب ہوائی جہاز یا صحرا و بیابان میں نماز پڑھے تو ماہرین(جہاز کے عملے وغیرہ)سے قبلے کی جہت معلوم کرلے یا پھر قبلے کی علامات سے پتا چلائے،تاکہ وہ علی وجہ البصیرت قبلہ رُو ہو کر نماز پڑھے۔اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو قبلہ جہت کی تلاش و جستجو کر کے جدھر بھی توقع ہو منہ کرکے نماز پڑھ لے،اس کی نماز ہو جائے گی،چاہے بعد میں یہ پتا ہی کیوں نہ چلے کہ اس نے غلط سمت منہ کر کے نماز پڑھی تھی۔کیونکہ اس نے تو اپنی طرف سے کوشش کی اور حسبِ استطاعت اللہ کا تقویٰ اختیار کیا۔جہاز یا صحرا میں قبلے کی تلاش میں کوشش کیے بغیر اپنی مرضی ہی سے کسی طرف منہ کرکے نماز پڑھ لینا جائز نہیں ہے۔اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز کو دُہرائے،کیونکہ اس نے حسبِ استطاعت تقویٰ اختیار کیا اور نہ کوشش کی۔‘‘ ’’رہا سائل کا ہوائی جہاز میں بیٹھ کر نمازپڑھنا تو اس میں کوئی حرج نہیں،جب کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی گنجایش نہ ہو،جیسا کہ بحری جہاز اور کشتی میں کھڑے نہ ہو سکنے کی شکل میں نماز کا معاملہ ہے۔اس کی دلیل یہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾[التغابن:16] ’’حسبِ استطاعت اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔‘‘
Flag Counter