Maktaba Wahhabi

415 - 699
کے ساتھ کر دیا جائے۔ امام نووی،ایسے ہی حافظ عراقی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ کے بقول اس بات پر اجماع ہے کہ سفر میں سواری پر نفلی نماز جائز ہے۔امام شافعی سمیت جمہور علما کے نزدیک یہ ہر سفر میں جائز ہے،وہ لمبا ہو یا تھوڑا۔البتہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک یہ صرف اس سفر میں جائز ہے،جو نمازِ قصر کا سفر ہے۔امام طبری رحمہ اللہ کا کہناہے کہ امام مالک کی اس معاملے میں کسی نے موافقت نہیں کی۔ چنانچہ اس سلسلے میں صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: {رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَھُوَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ یُسَبِّحُ،یُؤْمِيْ بِرَأْسِہٖ قِبَلَ أَيِّ وَجْہٍ تَوَجَّہَ،وَلَمْ یَکُنْ یَصْنَعُ،ذٰلِکَ فِي الصَّلَاۃِ الْمَکْتُوْبَۃِ}[1] ’’میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سواری پر نفلی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جدھر بھی جاتے صرف سرِ اقدس سے اشارہ کر کے نماز پڑھتے جاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز میں ایسا نہیں کرتے تھے۔‘‘ ایسے ہی صحیح بخاری اور ترمذی و ابوداؤد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: {إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یُصَلِّيْ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ نَحْوَ الْمَشْرِقِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یُّصَلِّيَ الْمَکْتُوْبَۃَ نَزَلَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ}[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر مشرق کی طرف منہ کیے(نفلی)نماز پڑھ لیتے تھے،لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض پڑھنا چاہتے تو سواری سے اُتر جاتے اور قبلہ رُو ہو کر پڑھتے تھے۔‘‘ صحیح بخاری ومسلم،سنن ابو داود،نسائی،موطا امام مالک اورمسند احمد میں حضرت انس بن سیرین رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ شام آئے تو ہم ان کے استقبال کے لیے نکلے۔ہم نے انھیں عین التمر نامی مقام پر پایا اور میں نے دیکھا کہ وہ اپنے سواری کے گدھے پر قبلے سے بائیں جانب منہ کیے ہی نماز پڑھ رہے ہیں۔ان کے الفاظ ہیں: ’’فَرَأَیْتُہٗ یُصَلِّيْ عَلٰی حِمَارٍ،وَوَجْھُہٗ مِنْ ذَا الْجَانِبِ،یَعْنِيْ عَنْ یَّسَارِ الْقِبْلَۃِ‘‘[3]
Flag Counter