Maktaba Wahhabi

432 - 699
(برطانیہ)میں واقع ہے،وہ اس بات کی شاہد عدل ہے،کیونکہ وہ ایک پرانا متروک چرچ تھی،جسے خرید کر مسجد ومدرسہ اور دفاتر کی شکل دی گئی ہے اور ایسا کرنا جائز ہے،کیونکہ اسلامی فتوحات کے عہدِزرّیں میں کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کی محرابوں کو بدل کر انھیں مساجد کی شکل دی۔[1] لات ومنات نامی مشہور بتوں میں سے لات طائف میں تھا۔اب اس کی جگہ پر مسجد تعمیر کی جاچکی ہے۔اگر اس جگہ کو جوں کا توں چھوڑ دیا جاتا تو خطرہ تھا کہ جاہل لوگ اسے پھر سے وثن نہ بنا لیں اور اس کی پوجا شروع کر دیں۔اس فتنے سے بچنے کے لیے اس مقام پر مسجد تعمیر کر دی گئی،اب لات اور اس کی پوجا کا تصور ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے اور شرک کا نام ونشان مٹ گیا ہے۔[2] عون المعبود شرح ابی داود میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے لکھا ہے کہ الملک العادل اورنگ زیب عالمگیر نے بھی کفار کے کئی معبدوں کی جگہ پر مساجد تعمیر کیں۔اسی سلسلے میں سنن ابی داود اور ابن ماجہ میں ایک حدیث بھی ہے جس میں حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ،جنھیں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا حاکم یا انھیں وہاں کے لیے اپنا نمایندہ مقرر فرمایا تھا،وہ بیان کرتے ہیں: {إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَمَرَہٗ أَنْ یَّجْعَلَ مَسْجِدَ الطَّائِفِ حَیْثُ کَانَ طَوَاغِیْتُھُمْ} ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم فرمایا کہ طائف کی مسجد وہاں بنائیں،جہاں پہلے بت خانے تھے اور بتوں کی پوجا کی جاتی تھی۔‘‘ امام ابو داود اور منذری نے اس حدیث کی سند پر سکوت فرمایا ہے اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس کی سند کے راوی ثقہ ہیں۔محمد بن عبداﷲ بن عیاض کو ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ہے اور ابو ہمام بھی ثقہ ہیں۔[3] اس تفصیل کی روشنی میں تو حدیث قوی ہو جاتی ہے،البتہ صحیح سنن ابی داود اور صحیح سنن ابن ماجہ کے مولف نے اسے اُن سے ساقط کر دیا ہے،جس سے اس کے ضعیف ہونے کا پتا چلتا ہے۔البتہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل اور بعدکے تعامل سے اسے تقویت ملتی ہے۔سنن نسائی میں حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
Flag Counter