Maktaba Wahhabi

448 - 699
’’اِئْتَمَرُوْا أَنْ یَّدْفِنُوْہُ فِي الْمَسْجِدِ‘‘ ’’صحابہ رضی اللہ عنہم نے مشورہ کیا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں دفن کیا جائے۔‘‘ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گود میں سر رکھے ہوئے فرمایا تھا کہ اﷲ تعالیٰ ان قوموں کو غارت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیا: ’’اِجْتَمَعَ رَأْیُھُمْ أَنْ یَّدْفِنُوْہُ حَیْثُ قُبِضَ فِيْ بَیْتِ عَآئِشَۃَ‘‘[1] ’’تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر اس جگہ پر دفن کیا جائے،جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض کی گئی۔‘‘ گویا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات پر اتفاق کے ساتھ عمل کر کے اپنی رائے ترک کر دی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے کی توثیق کر دی۔یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ قبر پر مسجد تعمیر کرنے یا قبر کو مسجد میں داخل کر دینے میں کوئی فرق نہیں،دونوں ایک ہی بات ہیں،حتیٰ کہ حافظ عراقی سے علامہ مناوی نے فیض القدیر(5/274)میں نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا ہے: ’’جس نے مسجد تعمیر کی اور اس کا ارادہ تھا کہ اس کے کسی حصے میں اسے دفن بھی کیا جائے گا تو وہ شخص بھی حدیث میں مذکور لعنت کا مستحق ہے،بلکہ مسجد میں تدفین حرام ہے۔اگر وہ تعمیرِ مسجد کے وقت یہ شرط عائد کرے کہ وہ اس میں دفن کیا جائے گا تو اس کی وہ شرط صحیح نہیں،کیونکہ یہ مسجد وقف کرنے کے منافی فعل ہے۔گذشتہ صفحات میں مذکور حدیث نمبر پانچ بھی اسی مفہوم ومعنیٰ کی شاہد ومؤید ہے،جس میں ارشاد ہے: {أُولٰئِکَ قَوْمٌ إِذَا کَانَ فِیْھِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ بَنُوْا عَلٰی قَبْرِہٖ مَسْجِداً۔۔۔أُوْلٰئِکَ شِرَارُ الْخَلْقِ} ’’ان میں سے جب کوئی نیک آدمی مرجاتا تو وہ اس کی قبر پر عبادت گاہ بنا لیتے تھے۔وہ بدترین لوگ ہوں گے۔‘‘ ان الفاظ میں ان کے بدترین لوگ ہونے کا سبب یہی قبروں پر مساجد کی تعمیر ہے،لہٰذا یہ حدیث قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنے کے حرام ہونے پر نصِ صریح ہے۔اس کی تائید صحیح مسلم،سنن ترمذی،
Flag Counter