Maktaba Wahhabi

453 - 699
بعض اہلِ علم نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کی تعظیم کے اعتقاد سے ان قبروں کو سجدہ کیا جائے یا نماز و دعا کے لیے ان کی طرف منہ کیا جائے۔چنانچہ علامہ مناوی نے ’’فیض القدیر شرح الجامع الصغیر‘‘ میں گذشتہ صفحات میں مذکور حدیث نمبر(3)کے الفاظ((اِتَّخِذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَائِ ھِمْ مَّسَاجِدَ}کا یہ معنیٰ بیان کیاہے: ’’أَيْ إِتَّخَذُوْھَا جِھِۃَ قِبْلَتِھِمْ مَعَ اِعْتِقَادِھِمُ الْبَاطِلِ،وَإِنَّ اتِّخَاذُھَا مَسَاجِدَ،لَازِمٌ لِإِتِّخَاذِ الْمَسَاجِدَ عَلَیْھَا کَعَکْسِہٖ‘‘ ’’انھوں نے قبروں کو جہتِ قبلہ بنا لیا ہے اور ان کا باطل عقیدہ اس پر مستزاد ہے۔ان کی طرف سجدہ کرنے سے ان پر مسجد یا سجدہ گاہ بنا لینا لازم آتا ہے اور ان پر مسجد یا سجدہ گاہ بنانے سے ان کی طرف سجدہ کرنا لازم آتا ہے۔‘‘ اسی تعظیم میں غلو کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی ہے۔ معروف مفسر امام بیضاوی نے لکھا ہے کہ یہودی لوگ اپنے انبیا علیہم السلام کی قبروں کو تعظیماً سجدہ کیا کرتے تھے،ان کی قبروں کو قبلہ بناتے تھے اور ان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے،گویا انھوں نے ان قبروں کو بت بنا لیا تھا،لہٰذا ان پر اﷲ تعالیٰ نے لعنت کی اور مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع کیا۔ اس کی ممانعت صراحت کے ساتھ صحیح مسلم،سنن ابی داود،ترمذی،نسائی،بیہقی،طحاوی،مسند احمد اور تاریخ ابن عساکر میں وارد حضرت ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آئی ہے،جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: {لَا تَجْلِسُوْا عَلٰی الْقُبُوْرِ،وَلَا تُصَلُّوْا إِلَیْھَا}[1] ’’قبروں پر(مجاور بن کر یا ویسے ہی)مت بیٹھو اور نہ(قصداً)ان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھو۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: ’’اس میں قبر کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کی صریح ممانعت وارد ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک کسی مخلوق کی تعظیم،حتیٰ کہ اس کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیا جائے،
Flag Counter