Maktaba Wahhabi

459 - 699
ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے۔‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’القاعدۃ الجلیلۃ في التوسل والوسیلۃ‘‘(ص:22-23 طبع دار الإفتاء)میں لکھا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو حرام کیا ہے کہ کسی کی قبر کو عبادت گاہ بنایا جائے اور وہاں پر نماز پڑھنے کا قصد و ارادہ کیا جائے،جیسے عام مساجد میں نماز پڑھنے کا قصد و ارادہ کیا جاتا ہے۔اگرچہ قبروں پر بنائی گئی مسجدوں میں نماز ادا کرنے والوں کا ارادہ خاص عبادتِ الٰہی ہی کا کیوں نہ ہو،لیکن چونکہ یہ اس بات کا ذریعہ بن سکتا ہے کہ لوگ صاحبِ قبر کی وجہ ہی سے پکارنے لگیں یا اس کے وسیلے سے دُعائیں کرنے لگیں یا پھر اس کے پاس دعائیں کرنے لگیں،لہٰذا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی جگہ پر اﷲ کی عبادت کرنے سے بھی منع فرما دیا،تاکہ کہیں یہ شرک کا دروازہ نہ کھول دے۔ آگے شرک کا دروازہ بند کرنے اور عقیدے کے تحفظ اور مشرکین کی مشابہت سے بچنے کے لیے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طلوعِ آفتاب،زوالِ آفتاب اور غروبِ آفتاب میں نماز سے منع کرنے کی مثال دینے اور اس کی تشریح کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اسی طرح جب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیا و صالحین کی قبروں کو عبادت گاہیں بنانے سے منع فرما دیا تو ان کی قبروں کے پاس نماز پڑھنے کا قصد و ارادہ کرنے سے بھی منع فرما دیا،تا کہ یہ کہیں ان قبروں والوں کو پکارنے کا ذریعہ اور شرک کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔[1] تمام معتدبہ علما کا اس اَمر پر تو اتفاق ہے کہ ایسی مساجد میں نماز پڑھنا مکروہ ہے،البتہ اس کے باطل ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے۔حنابلہ کا مذہب یہی ہے کہ نماز صحیح نہیں ہوگی،جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد‘‘(3/572)میں قبر پر بنائی گئی مسجد کے بارے میں کہا ہے: ’’وَلَا تَصِحُّ الصَّلَاۃُ فِيْ ھٰذَا الْمَسْجِدِ لِنَھْيِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنْ ذٰلِکَ،وَلَعْنِہٖ مَنِ اتَّخَذَ الْقَبْرَ مَسْجِدًا‘‘[2] ’’ایسی مسجد میں نماز صحیح نہیں،کیونکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور قبر کو عبادت گا بنانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
Flag Counter