Maktaba Wahhabi

467 - 699
ذکر کر کے اسے صحیحین کی طرف منسوب کیا ہے اور شرح مسلم میں بھی اشارہ کیا ہے۔[1] حالانکہ یہ ان کا وہم ہے،کیونکہ صحیح بخاری و مسلم میں ’’قبري‘‘ کا لفظ قطعًا نہیں ہے،بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ’’بَیْنَ قَبْرِيْ وَمِنْبَرِيْ‘‘ کے الفاظ جو زبان زدِ عام ہیں،یہ بعض رواۃ کی غلطی کا نتیجہ ہیں،جیسا کہ امام قرطبی،امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے جزماً کہا ہے اور صحاح میں سے کسی بھی کتاب میں اس لفظ کے ساتھ حدیث مروی نہیں ہے۔محض بعض روایات میں اس لفظ کا آجانا اسے صحیح کے درجے تک نہیں پہنچا دیتا،کیونکہ یہ دراصل بالمعنیٰ روایت ہے۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ ’’القاعدۃ الجلیلۃ في التوسل والوسیلۃ‘‘(ص:74)میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہی الفاظ یعنی ’’بَیْنَ بَیْتِيْ وَمِنْبَرِيْ‘‘ صحیح و ثابت ہیں اور بعض رواۃ نے بالمعنیٰ روایت بیان کرتے وقت ’’بَیْنَ قَبْرِيْ وَمِنْبَرِيْ‘‘ کہا ہے،حالانکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی،اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تھے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کا وجود تھا۔یہی وجہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے سلسلے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں نزاع ہوا تو کسی نے بھی اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا اور اگر یہ لفظ ان کے علم میں ہوتا تو اس نزاعی مسئلے میں نص صریح ہوتا،لیکن بعد میں ایک دوسرے ارشاد کے پیشِ نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں دفن کیاگیا،جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تھی۔بِأَبِيْ ھُوَ وَأُمِّيْ صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِ۔[2] قبروں پر بنائی گئی یا قبروں پر مشتمل مساجد میں نماز کے مکروہ ہونے کا حکم تمام مساجد کو شامل ہے،سوائے مسجدِ نبوی کے،کیونکہ اسے کچھ فضائل حاصل ہیں جو قبروں پر بنائی گئی مساجد میں سے کسی مسجد کو بھی حاصل نہیں ہیں۔کراہت کا حکم بلا استثنا سب مسجدوں کے لیے کر دیا جائے تو اس کا معنیٰ یہ ہوگا کہ یہ فضائل رفع ہوگئے،جو جائز بات نہیں ہے۔ ’’تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد‘‘ کے مولف(شیخ البانی)نے یہ معنیٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس کلام سے اخذ کیا ہے،جو اوقاتِ مکروہہ میں سببی نمازوں کی اباحت کے
Flag Counter