Maktaba Wahhabi

471 - 699
تدفین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہوئی تھی،مسجد میں نہیں اور گھر میں تدفین بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خاصا تھا،جو دوسرے کسی غیر نبی کے لیے جائز نہیں،جیسا کہ اس موضوع کی تفصیلات حوالوں کے ساتھ ہم ذکر کر چکے ہیں۔[1] جب اس شبہے یا اشکال کی یہ شق اس طرح حل ہو جائے تو پیچھے صرف یہ بات رہ جاتی ہے کہ اگر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں دفن کیا گیا تھا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حجرۂ مبارکہ یا قبرِ اقدس کو مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کب اور کس نے داخل کیا؟ اس سلسلے میں مؤرخینِ اسلام امام ابن جریر،امام ابن کثیر اور ایسے ہی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ نے اپنی متعدد کتب میںلکھا ہے کہ 88ھ میں ولید بن عبدالملک کے حکم سے مسجدِ نبوی میں توسیع کی گئی تو مسجد نبوی کے قریب ہی واقع نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما کے مکانات بھی مسجدِ نبوی میں شامل کر لیے۔اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مکان یا وہ حجرہ جس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں،اس حجرے کو بھی مسجد میں شامل کر لیا گیا،جس سے اس وقت مسجدِ نبوی کا طول دو سو ہاتھ اور عرض بھی دو سو ہاتھ ہو گیا۔[2] حجرۂ نبوی کو مسجد میں شامل کرنے کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا،جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی زندہ نہیں رہا تھا،بلکہ وہ سب وفات پا چکے تھے،جیسا کہ پہلے بھی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالے سے بات گزری ہے۔[3] حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ نے ’’الصارم المنکي في الرد علی السبکي‘‘ میں لکھا ہے کہ ولید بن عبد الملک کے عہدِ حکومت میں حجرہ مسجدِ نبوی میں داخل کیا گیا،جب کہ مدینہ طیبہ میں موجود صحابہ رضی اللہ عنہم فوت ہو چکے تھے۔صحابہ میں سے مدینے میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہما تھے،جو(ولید کے والد)عبد الملک کے عہدِ حکومت میں فوت ہوئے تھے،وہ 78ھ میں فوت ہوئے تھے۔ولید 86 میں مسندِ حکومت پربیٹھا اور 96ھ میں فوت ہوا۔مسجدِ نبوی کی توسیع و تعمیرِ جدید اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرۂ مبارکہ کو مسجدِ نبوی میں داخل کرنے کادور انہی(86ھ
Flag Counter