Maktaba Wahhabi

481 - 699
اس حدیث کی سند کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے مرسل قرار دیا ہے،جب کہ امام بخاری رحمہ اللہ اگرچہ اسے اپنی صحیح میں نہیں لائے،البتہ اپنی ایک دوسری کتاب ’’جزء القراء ۃ‘‘ میں اس کے صحیح ہونے کی طرف انھوں نے بھی اشارہ کیا ہے۔امام حاکم،علامہ ذہبی،امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور محققین کی ایک جماعت نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔[1] علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قبروں کی طرف منہ کرکے یا قبرستان میں نماز پڑھنے کی ممانعت سے تعلق رکھنے والی احادیث تو تواتر و شہرت کے درجے کو پہنچی ہوئی ہیں،جن کو ترک کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔سلف صالحین میں سے حضرت عمر،علی،ابو ہریرہ،انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم صحابہ میں سے اور ابراہیم نخعی،نافع بن جبیر بن مطعم،طاؤوس،عمرو بن دینار اور خیثمہ وغیرہم رحمہم اللہ تابعین میں سے قبرستان میں نماز کے ممانعت کے قائل ہیں اور امام احمد کا بھی یہی مسلک ہے چاہے کہیں صرف ایک ہی قبر کیوں نہ ہو۔حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ،اوزاعی رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی قبرستان میں نماز کے مکروہ ہونے ہی کے قائل ہیں۔امام شافعی رحمہ اللہ کے یہاں کچھ تفصیل ہے اور امام مالک رحمہ اللہ جواز کے قائل ہیں،جب کہ یہ احادیث ان کے قول کی تردید کر رہی ہیں۔[2] امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’اِجْعَلُوْا فِيْ بُیُوْتِکُمْ مِنْ صَلَاتِکُمْ وَلَا تَتَّخِذُوْھَا قُبُوْراً‘‘ ’’اپنے گھروں میں بھی کچھ نماز پڑھا کرو اور انھیں قبرستان نہ بنا دو۔‘‘ اکثر اہلِ علم نے اس ارشاد سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ قبرستان نماز کی جگہ نہیں ہے۔امام بغوی نے شرح السنۃ میں اور امام خطابی نے بھی معالم السنن میں یہی بات کہی ہے۔[3] قبرستان میں نماز کی ممانعت میں کیا حکمت ہے؟ اس سلسلے میں ایک تو کہا جاتا ہے کہ نمازی کے نیچے نجاست ہونے کی وجہ سے ممانعت ہے اور بعض نے فوت شدگان کی حرمت و احترام کی وجہ سے ممانعت شمار کی ہے۔[4] جب کہ دراصل یہ شرک کا دروازہ بند کرنے کے لیے ہے۔جیسا کہ تفصیل ذکر کی جا چکی ہے۔
Flag Counter