Maktaba Wahhabi

510 - 699
اس کا جواب صاحبِ فتح الباری نے دو طرح سے دیا ہے: 1۔ اس بات کا احتمال موجود ہے کہ اس دو رکعتوں والی روایت میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کم از کم یقینی و متحقق مقدارِ رکعات پر اعتماد کیا ہو اور وہ یوں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی تھی اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً یہ منقول و ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت دو رکعتوں سے کم کبھی نفلی نماز پڑھی ہو تو گویا دو رکعتیں نماز یقینی امر تھا،جو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ کے استقرا سے معلوم و معروف ہے۔ اس تفصیل کی روشی میں ’’رکعتین‘‘ کا لفظ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا نہیں بلکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے کلام سے ہے۔ 2۔ اس اشکال کا دوسرا جواب یہ بھی ممکن ہے،بلکہ اس سے پہلے جواب کی تائید بھی ہوتی ہے کہ عمر بن شبہ کی ’’کتابِ مکہ‘‘ میں ایک روایت انھوں نے باسند بیان کی ہے،جس میں ہے: ’’فَاسْتَقْبَلَنِيْ بِلَالٌ فَقُلْتُ:مَا صَنَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ھٰھُنَا؟ فَأَشَارَ بِیَدِہٖ أَيْ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ بِالسَّبَابَۃِ وَالْوُسْطیٰ‘‘ ’’میرے سامنے حضرت بلال رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں خانہ کعبہ میں کیا کیا ہے؟ تو انھوں نے(صراحتاً جواب دینے کے بجائے)اپنی انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھی ہیں۔‘‘ اس حدیث کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے رکعتوں کی تعداد کے بارے نہ تو لفظاً سوال کیا اور نہ انھیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے لفظاً جواب دیا،بلکہ انھوں نے ان کے اشارے سے دو رکعتیں سمجھی تھیں نہ کہ زبان سے۔اس طرح ان کا یہ کہنا کہ میں نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھیں؟ اس کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ انھوں نے اس معاملے میں تحقیق نہیں کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتوں سے زیادہ بھی نماز پڑھی ہے یا نہیں؟[1] اس طرح ان دو طرح کی روایات کے مابین پائے جانے والے اشکال کا ازالہ ہوگیا۔
Flag Counter