Maktaba Wahhabi

567 - 699
یا پھر خاص طور پر یہ لفظ حیوانات کے لیے بولا جاتا ہے۔‘‘ گویا عموماً تو یہ حیوانات کے لیے ہے،لیکن اس کا اطلاق دیگر محسوسات و معقولات پر بھی ہوتا ہے۔چنانچہ بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ یہ لفظ حکمت ودانائی کی بات کے لیے بھی بولا گیا ہے،جیسا کہ سنن ترمذی کتاب العلم باب(119)اور سنن ابن ماجہ کتاب الزہد باب(15)اور ضعفاء ابن حبان میں حدیث ہے: {اَلْکَلِمَۃُ الْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ فَحَیْثُ وَجَدَھَا فَھُوَ أَحَقُّ لَھَا} ’’حکمت ودانائی کی بات مومن کی ایک گمشدہ دولت ہے۔جہاں بھی وہ پائی جائے،وہی اس کا اصل مستحق ہے۔‘‘ لیکن ہمیں چونکہ یہاں صرف اس میں وارد لفظ ’’ضالۃ‘‘ کے لغوی معنیٰ ومفہوم کی تعیین مطلوب ہے،لہٰذا اس کے لیے اس حدیث سے بھی تائید لی جاسکتی ہے کہ حکمت ودانائی کی بات کے لیے بھی ’’ضالۃ‘‘ کا لفظ وارد ہوا ہے۔گویا ’’المعجم الوسیط‘‘ میں جو معقولات پر بھی اس لفظ کے اطلاق کی بات آئی ہے تو وہ اس حدیث کے الفاظ سے ثابت بھی ہوگئی۔قرآنِ کریم کے مطالعے سے تو پتا چلتا ہے کہ یہ لفظ یا اس فعل کا صیغہ انسانوں کی گمشدگی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔چنانچہ سورۃ سجدہ میں اﷲ تعالیٰ نے کُفّار کا قول نقل فرمایا ہے کہ وہ کہیں گے: ﴿وَ قَالُوْٓا ئَ اِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ئَ اِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ﴾[السجدۃ:10] ’’اور وہ کہنے لگے کہ ہم جب(مر کر)زمین میں گم ہوجائیں گے تو کیا از سرِ نو پیدا ہوں گے؟‘‘ ایسے ہی سورۃ الاعراف میں ہے کہ موت کے وقت اﷲ کے فرشتے جب منکرینِ حق سے پوچھیں گے کہ کہاں ہیں وہ جنھیں تم اﷲ کے علاوہ پکارا کرتے تھے؟ تو وہ جواب دیں گے: ﴿قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا﴾[الأعراف:37] ’’وہ کہیں گے کہ ہم سے غائب ہوگئے ہیں۔‘‘ ان آیات میں زیرِ بحث لفظ کے فعل ماضی کے صیغے انسانوں کی گمشدگی کے بارے میں آئے ہیں۔قرآنِ کریم میں اس لفظ اور اس کے مشتقات کو کن کن معنوں میں استعمال کیا گیا ہے،اس کی تفصیل کے لیے ’’المعجم المفھرس لألفاظ القرآن الکریم‘‘(ص:421۔424)کا مطالعہ مفید رہے گا۔
Flag Counter