Maktaba Wahhabi

593 - 699
اور یہ جواب امام عطا رحمہ اللہ کی طرف سے ہے۔مصنف عبدالرزاق میں وارد امر سے اس بات کا ہی اشارہ ملتا ہے،البتہ کرمانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ سوال امام عطاء رحمہ اللہ کی طرف سے ہے اور جواب حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے دیا ہے تو اس شکل میں اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لہسن سے مراد اس کا کچے کا استعمال ہے۔[1] اسی حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ مخلد بن یزید نے ابن جریج سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مراد اس کی بدبو ہے۔مصنف عبدالرزاق میں ہے: {أَرَاہُ یَعْنِيْ النَّیِّئَۃَ الَّتِيْ لَمْ تُطْبَخْ}[2] ’’میرا خیال ہے کہ اس سے مراد کچا لہسن ہے،جو پکایا نہ گیا ہو۔‘‘ مستخرج ابو نعیم میں بھی یہی الفاظ ہیں: ’’یُرِیْدُ النَّیِّیَٔ الَّتِيْ لَمْ یُطْبَخْ‘‘[3] ’’اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کچا لہسن ہے،جو پکایا نہ گیا ہو۔‘‘ کچے لہسن کو پکا لینے سے اس کا حکم ہی بدل جاتا ہے،پھر اس کے استعمال میں کراہت نہیں رہتی،کیونکہ اس طرح اس کی بدبو ختم ہوجاتی ہے،چنانچہ اس سلسلے میں صحیح مسلم،سنن نسائی و ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد میں ہے کہ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ میں فرمایا: ’’إِنَّکُمْ أَیُّھَا النًّاسُ تَأْکُلُوْنَ مِنْ شَجَرَتَیْنِ مَا أَرَاھُمَا إِلَّا خَبِیْثَتَیْنِ،ھٰذَا الْبَصَلُ وَالثُّوْمُ،وَلَقَدْ رَأَیْتُ نَبِيَّ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَجَدَ رِیْحَھَا مِنَ الرَّجُلِ أَمَرَ بِہٖ فَأُخْرِجَ إِلٰی الْبَقِیْعِ فَمَنْ أَکَلھَا فَلْیُمِتْھَا طَبْخًا‘‘[4] ’’اے لوگو! تم یہ پودے لہسن اور پیاز کھاتے ہو،جبکہ میں انھیں خبیث سمجھتا ہوں۔میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بقیع کی طرف نکلوا دیا تھا،
Flag Counter