Maktaba Wahhabi

597 - 699
قَالَ لِأَصْحَابِہٖ:کُلُوْا فَإِنِّيْ لَسْتُ کَأَحَدٍ مِّنْکُمْ،إِنِّيْ أَخَافُ أَنْ أُوْذِيَ صَاحِبِيْ‘‘[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی میزبانی کے شرفِ عظیم سے نوازا تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پُر تکلف کھانا تیار کیا،جس میں بعض سبزیاں(لہسن وغیرہ)تھیں۔جب کھانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا:تم لوگ کھالو،میرا معاملہ تم جیسا نہیں ہے،مجھے خدشہ ہے کہ اس کے کھانے سے کہیں میرے صاحب(جبرائیل علیہ السلام)کو تکلیف نہ پہنچے۔‘‘ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں تبویب کی ہے: ’’باب الدلیل علی أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم خص بترک أکلھن لمناجاۃ الملائکۃ‘‘ ’’اس بات کی دلیل کا بیان کہ فرشتوں سے مناجات کے شرف کی وجہ سے لہسن وغیرہ کو ترک کرنا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا تھا۔‘‘ ان احادیث سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ یہ ترکاریاں حلال ہیں حرام نہیں ہیں اور یہ بھی کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انھیں ترک کرنا حضرت جبرائیل علیہ السلام سے ہم کلامی کے شرف کی وجہ سے تھا نہ کہ حرمت کی وجہ سے۔اب اگر کوئی شخص پکے ہوئے لہسن وغیرہ کو بھی ترک کر دے تو وہ بھی اس کی مرضی ہے۔ورنہ امت کے لیے کراہت والی کوئی بات نہیں،جیسا کہ پہلے ذکر کردہ حدیث میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن کی وجہ سے کھانا نہیں کھایا تو سبب پوچھا،تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ یہ حرام تو نہیں،البتہ میں اسے اس کی بو کی وجہ سے ناپسند کرتا ہوں تو اس حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے بھی وہ کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور فرمایا: ’’فَإِنِّيْ إِکْرَہُ مَا کَرِھْتَ‘‘[2] ’’میں بھی اسے پسند نہیں کرتا جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار ہے۔‘‘ یہ میزبانِ رسول صحابی حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا اپنا اختیار تھا،ورنہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس کے کھانے سے منع نہیں فرمایا تھا،لہٰذا اگر کوئی شخص نظافت و طہارت اور منہ کی ہوا کو عمدہ سے عمدہ تر رکھنے کی غرض سے پکا ہوا لہسن بھی نہ کھائے تو وہ اس کی مرضی ہے،البتہ اس کے کھانے کی ممانعت نہیں ہے۔
Flag Counter