Maktaba Wahhabi

612 - 699
’’إِنَّہٗ کَانَ یَنَامُ وَھُوَ شَابٌّ أَعْزَبُ لَا أَھْلَ لَہٗ فِيْ مَسْجِدِ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘[1] ’’وہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجدِ(نبوی)میں سویا کرتے تھے،کیونکہ وہ ابھی اہل و عیال والے نہیں،بلکہ غیر شادی شدہ تھے۔‘‘ مسند احمد کے الفاظ ہیں: {کُنَّا فِيْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم نَنَامُ فِي الْمَسْجِدِ،وَنَقِیْلُ فِیْہِ وَنَحْنُ شَآبٌّ}[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں ہم مسجد میں دوپہر اور رات کو سویا کرتے تھے اور ہم جوان تھے۔‘‘ 6 چھٹی حدیث صحیح بخاری و طبرانی اور دیگر کتب میں مروی ہے،جس میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ جگر گوشۂ رسول حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ گھر میں ان کے شوہر نامدار حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں ہیں۔پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ تو انھوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ گرمی سردی ہوگئی ہے اور وہ ناراض ہو کر گھر سے نکل گئے ہیں اور آج کی دوپہر گھر پر قیلولہ(دوپہر کا معمولی سا سونا)بھی نہیں کیا۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھیجا کہ جاؤ! دیکھو وہ کہاں ہیں؟ تو اس نے واپس آکر بتایا،اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ’’ھُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ‘‘ ’’وہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔‘‘ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد تشریف لے گئے اور دیکھا کہ وہ اس طرح لیٹے ہیں کہ ان کے ایک پہلو سے چادر ہٹی ہوئی ہے اور انھیں مٹی لگی ہوئی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مٹی جھاڑنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ پیار سے فرماتے گئے: {قُمْ یَا أَبَا تُرَابٍ! قُمْ یَا أَبَا تُرَابٍ!}[3] ’’اے مٹی والے! اٹھو،اے مٹی والے! اٹھو۔‘‘ اس حدیث سے بھی بوقتِ ضرورت مسجد میں سونے کے جواز کا پتا چلتا ہے،لیکن بقول شارح
Flag Counter