Maktaba Wahhabi

634 - 699
’’وہ مسجد سے گزرتا ہوا نکل جائے،لیکن اس میں بیٹھے نہیں۔‘‘ یہ حکم جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں،جنبی والا ہے،جس میں قدرے شدت پائی جاتی ہے،یہاں مسئلہ جائز و ناجائز کا نہیں،بلکہ اولیٰ و غیر اولیٰ کا ہے،جیسا کہ شیخ ابن باز کی تحقیق سے پتا چلتا ہے۔مسجد میں بے وضو داخل ہونے کے غیر اولیٰ یا ناپسندیدہ ہونے کی دلیل کے طور پر وہ حدیث پیش کی جاسکتی ہے،جو صحیحین،سنن اربعہ،صحیح ابی عوانہ،سنن دارمی،بیہقی،موطا امام مالک اور مسند احمد میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: {إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمْ الْمَسْجِدَ فَلَا یَجْلِسُ حَتّٰی یُصَلِّيَ رَکْعَتَیْنِ}[1] ’’تم میں سے جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو وہ دو رکعتیں پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔‘‘ جب مسجد میں داخل ہونے والا نماز پڑھنے پر مامور ہے تو وہ نماز کی شرط یعنی وضو پر بھی مامور ہوگا،لہٰذا باہر سے مسجد میں داخل ہونے والے کے لیے وضو کی اہمیت اس شخص کی نسبت زیادہ ہے جو باوضو مسجد میں گیا اور تادیر مسجد میں بیٹھا رہا اور کسی وقت اس کا وضو ٹوٹ گیا،کیونکہ ایسا شخص دو رکعتوں پر مامور نہیں ہے۔ غرض کہ تقدس و احترام مسجد کی خاطر باوضو ہو کر مسجد میں داخل ہونا اور با وضو ہی رہنے کی کوشش کرنا افضل ہے،ورنہ بے وضو کے لیے عدمِ جواز والی کوئی بات نہیں ہے،کیونکہ اصحابِ صفہ تو مسجد میں سویا کرتے تھے۔رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھُمْ۔ جو شخص باہر سے مسجد میں جائے اور چلتے چلتے کسی کو دیکھ کر نکل آنا ہو تو اسے وضو کرنے نہ کرنے میں اختیار ہے،اگرچہ ابو داود کے الفاظ کی رُو سے تو یہ گنجایش بھی نہیں ملتی،کیونکہ اس میں ہے: {ثُمَّ لْیَقْعُدْ بَعْدُ إِنْ شَآئَ أَوِ لْیَذْھَبْ لِحَاجَتِہٖ}[2] ’’پھر وہ چاہے تو مسجد میں بیٹھ رہے یا اپنے کام سے چلا جائے۔‘‘
Flag Counter