Maktaba Wahhabi

644 - 699
بھی جمہور علما کے ساتھ بلکہ ان کے زبردست حامی اور کفار کے نجس نہ ہونے کے قائل ہیں۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے معالم السنن میں مشرک کے دخولِ مسجد کے جواز کو اختیار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ بوقتِ ضرورت مسجد میں داخل ہو سکتا ہے،مثلاً اس کا کوئی قرض دار مسجد میں ہو اور باہر نہ نکل رہا ہو تو وہ اندر جا سکتا ہے،ایسے ہی اگر اس نے کوئی کیس قاضی کی عدالت میں دائر کروانا ہو اور قاضی مسجد میں بیٹھا ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ اپنا حق ثابت کرنے کے لیے مسجد میں چلا جائے اور ایسے دیگر امور کے لیے بھی اس کا مسجد میں داخلہ جائز ہے۔[1] امام خطابی رحمہ اللہ نے یہ بات سنن ابو داود کی اس حدیث کی شرح کے وقت لکھی ہے،جو صحیح بخاری و مسلم میں بھی ہے،جس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک آدمی(جو مشرک و غیر مسلم تھا)اپنے اونٹ پر سوار مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا اور اپنا اونٹ بٹھا کر پوچھتا ہے کہ تم میں سے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کون ہے؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے مابین ٹیک لگائے بیٹھے تھے،ہم نے اس آدمی سے کہا: ’’ھٰذَا الْأَبْیَضُ الْمُتَّکِیُٔ‘‘[2] ’’یہی گورے رنگ والے جو ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔‘‘ یہی یا ایسی ہی ایک اور حسن سند والی حدیث بھی سنن ابو داود میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔[3]جبکہ اسی باب میں ایک تیسری حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے،جس میں یہودیوں کے مسجد میں آنے کا ذکر ہے،جبکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے،لیکن وہ ضعیف حدیث ہے۔[4] البتہ نفسِ مسئلہ چونکہ دیگر احادیث سے ثابت ہے،لہٰذا اس حدیث کی ضرورت ہی کیا ہے؟ محض اس کے ضعف کو واضح کرنا ہمارا مقصود ہے۔ اب رہا مسئلہ کفار و مشرکین اور یہود و ہنود یا نصاریٰ اور سکھوں کے زیرِ تعمیر مسجد میں کام کرنے کا تو معاملہ یہ بھی وہی ہے کہ جب تیار شدہ مسجد میں ان کا داخلہ جائز ہے تو پھر زیرِ تعمیر مسجد میں کیونکر ممنوع ہوگا؟ البتہ اتنا ضرور ہے کہ مسئولین یا انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں کافی حزم و احتیاط سے کام لے اور اسی بات کو ترجیح دے کہ کسی ایسے کنٹریکٹر کو کام دے،جو خود بھی مسلم ہو،جس کی لیبر
Flag Counter