Maktaba Wahhabi

647 - 699
بطحا رکھا ہوا تھا،جو گفتگو کرنا چاہتا یا قصیدہ گوئی کا عزم کرتا یا رفعِ صوت کا محتاج ہوتا،اسے وہاں بھیج دیا کرتے تھے۔[1] صحیح مسلم میں ہے کہ جس نے کسی شخص کو سنا کہ وہ گمشدہ جانور مسجد میں تلاش کر رہا ہے تو جواباً کہنا چاہیے:’’اﷲ کرے تجھے یہ جانور نہ مل سکے۔‘‘ ’’لِأَنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِھٰذَا‘‘[2] ’’مسجدیں اس غرض کے لیے تو نہیں بنی ہوئیں۔‘‘ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: {لَا تُقَامُ الْحُدُوْدُ فِيْ الْمَسْجِدِ وَلَا یُسْتَقَادُ فِیْھَا}[3] ’’مسجد میں حد قائم کی جائے اور نہ قصاص لیا جائے۔‘‘ حدیثِ ہذا شواہد کی بنا پر ثابت اور قوی ہے۔[4] آدابِ مسجد کے پیشِ نظر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام وہ دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے تھے،بند کروا دیے ما سوائے استثنائی صورت کے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ زیرِ حدیث فرماتے ہیں: ’’وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ تُصَانُ عَنِ التَّطَرُّقِ إِلَیْھَا لِغَیْرِ ضُرُوْرَۃٍ مُّھِمَّۃٍ‘‘[5] مذکورہ احادیث کی روشنی میں بلا تردد یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسجد میں رہایش کی صورت میں کئی ایک مسائل کا سامنا کرنے کے علاوہ بے شمار پیش آمدہ ضروریاتِ زندگی سے محفوظ و مصئون نہیں رہا جاسکتا،جن سے مسجد کی صیانت و کرامت کا مجروح ہونا ایک یقینی امر ہے۔لہٰذا مسجد کی خدمت کو بہانہ بنا کر شرفِ مسجد کو پامال کرنا درست فکر نہیں۔مسجد کی خدمت باہر رہ کر بھی بطریقِ احسن سر انجام دی جاسکتی ہے،اس میں کون سی شے مانع ہے؟ لہٰذا سوال میں مذکور اشخاص کو مسجد سے علاحدہ مسکن اختیار کرنا چاہیے،یا مسجد سے ملحق ایسی جگہ جس سے احترامِ مسجد میں فرق نہ آئے۔
Flag Counter