Maktaba Wahhabi

661 - 699
{جَنِّبُوْا مَسَاجِدَکُمْ۔۔۔رَفْعَ أَصْوَاتِکُم}[1] ’’اپنی مساجد میں۔۔۔آواز بلند کرنے سے اجتناب کرو۔‘‘ ان احادیث و آثار کی بنا پر بعض اہلِ علم نے مطلقاً مسجد میں آواز بلند کرنے کو مکروہ و ممنوع قرار دیا ہے،حتیٰ کہ علامہ ابن عبدالبر نے ’’جامع بیان العلم و فضلہ‘‘ میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباري میں امام مالک رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ ان سے مسجد میں علم سکھانے کے لیے آواز بلند کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: ’’ایسے علم میں کوئی خیر و بھلائی نہیں جو مسجد میں شور مچانے کا باعث بنے۔میں نے لوگوں کو زمانۂ قدیم سے اس فعل کو معیوب سمجھتے پایا ہے لہٰذا میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں۔‘‘[2] حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے طرزِ عمل اور امام مالک رحمہ اللہ کے ارشاد کو سامنے رکھا جائے تو مساجد میں اگر حصولِ علم کے لیے بعض دوسری احادیث سے استدلال کرتے ہوئے آواز بلند کرنے کی گنجایش نکلتی ہے،تو وہاں ظاہر ہے کہ صرف خطیب و مدرس یا مقرر کے آواز بلند کرنے کی گنجایش نکلتی ہے۔سامنے بیٹھے ہوئے سامعین کی نعرے بازی کی اس سے گنجایش قطعا نہیں نکلتی۔بلکہ آج ہمارے لوگوں میں نعرے بازی کا جو انداز آچکا ہے کہ وہ مسنون نعرئہ تکبیر پر اکتفا ہی نہیں کرتے تو ایسے خود ساختہ نعروں کا جواز کشید کرنا تو اور بھی مشکل امر ہے،کیونکہ ان میں سے بعض تو نہ صرف تقدس و احترامِ مسجد کے منافی بلکہ اہلِ سنت کے صحیح ومتفقہ عقائد کے بھی خلاف ہوتے ہیں،لہٰذا مساجد میں خطیب یا مقرر کو بغور صرف سننا ہی چاہیے۔بلاوجہ کی نعرے بازی آدابِ مسجد کے منافی ہے۔وہ تو عموماً مجلس کو گرمانے کے لیے ہوتی ہے،جب کہ وہ کسی عام یا کھلی جگہ پر منعقد ہو نہ کہ مسجد کی پر امن و پُرسکون فضا میں ارتعاش پیدا کرنے کے لیے۔اگر مسجد میں نعرہ بازی خطبۂ جمعہ کے دوران میں ہو تو یہ اور بھی ناجائز بات ہے،کیونکہ جمعہ کے تو خود اپنے بھی بعض آداب اور پابندیاں ہیں،جو ایسے امور کی سامعین کو قطعاً اجازت نہیں دیتیں۔ البتہ امام و خطیب یا مدرس و مقرر کے مسجد میں آواز بلند کرنے کے جواز پر صحیح بخاری کی اس
Flag Counter