Maktaba Wahhabi

676 - 699
پاگل اور دیوانے چاہے کچھ لوگوں کے نزدیک ولی ہی کیوں نہ کہلاتے ہوں،وہ اور جانور مسجد کے تقدس و احترام کا پاس نہیں رکھ سکتے،لہٰذا متولیانِ مساجد کی ذمے داری ہے کہ وہ انھیں مساجد سے دور رکھیں اور کسی کو اگر احترامِ آدمیت و انسانیت کا پاس کرنے کی توفیق ہو تو بے آسرا و بے سہارا دیوانوں کے لیے گاؤں یا شہر کے اہلِ محلہ کو ساتھ ملا کر انھیں یعنی دیوانوں کو کسی ہسپتال میں داخل کروایا جائے،جہاں ان کا علاج بھی ہو اور لوگ ان کے شر سے اور مساجد ان کے غلاظت پھیلانے سے بھی محفوظ رہیں۔وہ لوگ قابلِ رحم ہیں،لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ انھیں مساجد میں چھوڑ دیا جائے،یہ فعل تقدّس و احترامِ مسجد کے سراسر منافی ہے اور یہی معاملہ بلیوں کا بھی ہے۔ یہاں ہم ایک بات کی وضاحت کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ مجذوبوں،دیوانوں اور بلیوں وغیرہ کو مساجد سے دور رکھنا محض اس لیے ہے کہ یہ گندگی کا باعث بنتے ہیں اور یہ بات احترامِ مسجد کے منافی ہے۔اس سلسلے میں بعض احادیث بھی مروی ہیں،لیکن وہ ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ استدلال ہیں،جیسا کہ بعض احادیث مساجد میں نفاذِ حدود کے سلسلے میں ذکر کی جا چکی ہیں،مثلاً حضرت ابو الدرداء،حضرت واثلہ بن اسقع اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہم سے مرفوعاً طبرانی کبیر،خلافیاتِ بیہقی اور مصنف عبدالرزاق میں اور سنن ابن ماجہ میں حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً اور مصنف ابن ابی شیبہ میں مکحول سے مرسلاً مروی ہے: {جَنِّبُوْا مَسَاجِدَکُمْ صِبْیَانَکُمْ وَمَجَانِیْنَکُمْ وَشِرَارَکُمْ وَبَیْعَکُمْ وَخُصُوْمَاتِکُمْ وَأَصْوَاتِکُمْ وَسَلَّا سُیُوْفِکُمْ وَإِقَامَۃِ حُدُوْدِکُمْ}[1] ’’اپنی مسجدوں کو بچوں،دیوانوں،برے لوگوں،خرید و فروخت،جھگڑوں،آوازوں کے شور،ننگی تلواروں اور نفاذِ حدود سے بچاؤ۔‘‘ اس کے بارے میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ مرسل اور ایک طریق سے مرفوع مگر ضعیف ہے۔[2] امام مکحول ہی کے طریق سے ایک روایت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی مرفوعاً معجم طبرانی کبیر میں مروی ہے،جس میں ہے: {جَنِّبُوْا مَسَاجِدَکُمْ صِبْیَانَکُمْ وَخُصُوْمَاتِکُمْ وَحُدُوْدَکُمْ وَشِرَائَ کُمْ وَبَیْعَکُمْ}[3]
Flag Counter