Maktaba Wahhabi

678 - 699
پیشِ نظر رکھ کر بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ بچوں کی تعلیم کے لیے بھی مسجد کا استعمال جائز نہیں ہے،لیکن وہ احادیث ضعیف ہیں،جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم کا اس مسئلے میں اختلاف ہے،چنانچہ علامہ بدر الدین زرکشی نے ’’إعلام الساجد‘‘ میں لکھا ہے: ’’کسی خاص ضرورت کے بغیر پاک و ناپاک میں تمیز نہ کر سکنے والے بچوں کو مسجد میں داخل کرنا مکروہ ہے،کیونکہ ان سے مسجد میں نجاست پھیلانے کا خدشہ رہتا ہے۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ نے ’’روضۃ الطالبین‘‘ میں تو بچوں اور دیوانوں کے مسجد میں داخلے کو مطلقاً ممنوع لکھا ہے۔البتہ صحیح مسلم کی شرح میں اسے جائز قرار دیا ہے۔[1] یہ تو مطلق دخول کی بات ہوئی،جبکہ اس سلسلے میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ جواز کا پہلو ہی راجح ہے،کیونکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہما کو اٹھا کر نماز پڑھنے اور لمبی نماز کے ارادے کے باوجود کسی بچے کی آواز سن کر نماز ہلکی پڑھ لینے کے عملِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی تقاضا ہے۔ اب رہا معاملہ مسجد کو مکتب و مدرسہ بنا لینے کا تو اس سلسلے میں علامہ جمال الدین قاسمی نے ’’إصلاح المساجد‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ صرف اسی صورت میں جائز ہے،جبکہ کوئی مسجد غیر آباد ہو اور نماز و عبادت کے لیے وہاں کوئی نہ آتا ہو،ان کے نزدیک نمازیوں اور عبادت گزاروں سے آباد مسجد میں قرآن پڑھانے،لکھائی اور پڑھائی کے ابتدائی امور سکھلانے کا مدرسہ کھول بیٹھنے سے مسجد کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے۔[2] علامہ زرکشی نے قفال سے ذکر کیا ہے کہ جب ان سے مسجد میں بچوں کو تعلیم دینے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: ’’چھوٹے بچے زیادہ تر مسجد کو نقصان ہی پہنچاتے ہیں،لہٰذا انھیں منع کرنا جائز ہے۔‘‘ امام قرطبی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ بعض علما نے مسجد میں بچوں کی تعلیم کو منع کہا ہے اور انھوں نے اسے خرید و فروخت کے ضمن میں شمار کیا ہے،لیکن یہ تو تب ہے کہ جب مسجد میں تعلیم دینے والا اس کی باقاعدہ تنخواہ لیتا ہو اور اگر کوئی اُجرت کے بغیر بھی پڑھائے تو اسے بھی انھوں نے جائز قرار
Flag Counter